مسئلہ ایودھیا! ہندو فریقین کےوکلاء کو عدالت عالیہ نے دی اہم صلاح۔ جانیں کیا ہے پورا معاملہ

,

   

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پھر ایک بار پھر ہندو فریقین وکلاء کو ایک اہم صلاح دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ استھا کا نہیں ہے، ہمیں نقشہ دکھائیں یا کچھ ایسا دکھائیں جس سے یہ پتہ چلے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں رام چندر جی پیدا ہوئے۔ رنجن گوگوئی نے مزید کہا کہ ہندو مذہبی کتابوں سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ استھا کا نہیں بلکہ زمین کی ملکیت کا ہے۔

رام للا کے وکیل سی ایس ودیا ناتھن نے کہا کہ یہ جگہ ہمیشہ ہندووں کی عقیدہ کی جگہ رہی ہے کبھی یہاں مسلمانوں کا قبضہ نہیں رہا ہے۔ اور اس جگہ کے بارے میں سب کو پتہ ہے کہ رام جی کا جنم استھان ہے۔

اس مسئلہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بنچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو سینئر ایڈوکیٹ سی ایس ویدیاناتھن نے کہا کہ یہ صرف مندر توڑ کر مسجد بنانے کا سوال نہیں بلکہ یہ مقام ہی ہندوؤں کے لئے مقدس ہے ساتھ ہی ساتھ یہ مقام کسی بھی صورت میں فروخت، منتقل اور الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

 رام للا براجمان کے وکیل سی ایس ودیاناتھن نے آئینی بینچ کے سامنے اپنے دلائل رکھتے ہوئے کہا کہ رام للا نابالغ ہیں ایسے میں نابالغ کی جائداد کو نہ تو بیجا جاسکتا ہے اور نہ ہی چھینا جاسکتا ہے، اور ناہی اس پر نا جائز قبضہ جمایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے عدالت کے سامنے اپنی دلیل رکھتے ہوئے کہا کہ اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ وہاں کوئی مندر نہیں اور کوئی دیوتا نہیں تھے توپھر بھی لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ رام جنم بھومی پر ہی شری رام کا جنم ہوا تھا، ایسے میں وہاں مورتی رکھنا اس مقام کا تقدس بحال کرنے جیسا ہے، اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے رام للا کے وکیل نے کہا کہ متنازعہ جگہ مندر ہو یا نہ ہو مورتی ہو یا نہ ہو لوگوں کی آستھا ہونا ہی کافی ہے اور بڑی بات ہے کہ وہ رام جنم استھان ہے، اس لئے وہاں مسجد بناکر قبضہ کے دعویٰ کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا مندر ہمیشہ مندر ہی رہتا ہے۔جائداد کو آپ منتقل نہیں کرسکتے ہیں مورتی کسی کی جائداد نہیں ہوتی، مورتی ہی دیوتا ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنم استھان ہی دیوتا ہیں اگر پراپرٹی خود ایک دیوتا ہیں تو زمین کے مالکانہ حق کا دعویٰ بے جا ہے۔

اس پر جسٹس بوبڑے نے کہا کہ آپ کے دلائل اس طرح کے ہیں کہ مورتی کی ملکیت والی جائداد ناقابل حصول ہے اگر کوئی دوسرا شخص جائداد پر دعویٰ کرتا ہے تو وہ اسے قبضہ میں نہیں رکھ سکتا ہے کیونکہ یہ جائداد منتقل والی چیز نہیں ہے۔

اسی درمیان جسٹس عبدالنظیر نے ایڈوکیٹ ویدیاناتھن سے سوال پوچھا کے کیا وقف شدہ پراپرٹی کو منتقل کیا جاسکتا ہے یا اسے جبراً کسی سے لیا جاسکتا ہ؟ جس کا تشفی بخش جواب ویدیاناتھن نہیں دے سکے لیکن انہوں نے عدالت سے کہا کہ وہ اس موضوع پر بعد میں بحث کی جائے گی۔لیکن جاتے جاتے انہوں نے کہا کہ بابری مسجد سنی سینٹرل وقف بوڈ میں رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی وہ ٹیکس وغیرہ ادا کرتے ہیں۔ سینئر ایڈوکیٹ ویدیاناتھن نے آج عدالت میں ماضی کے متعدد فیصلوں کو پڑھا نیز انہوں نے آخر میں عدالت سے کہا کہ اس معاملہ کی سماعت فل بینچ کے ذریعہ ہوئی تھی لہذا عدالت کو اس کے فیصلہ پر احتیاط سے مداخلت کرنی ہوگی۔

ویدیاناتھن کی بحث کے اختتام کے بعد سینئر ایڈوکیٹ پی این مشرا جیسے بحث کرنے کھڑے ہوئے چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ آیا وہ اس معاملہ میں فریق ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ میں سوٹ نمبر 4 میں مدعہ علیہ نمبر 20 ہوں اور میں رام جنم بھومی سمیتی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ ایڈوکیٹ پی این مشرا نے کہا کہ وہ اپنی بحث کا آغاز آتھروید پڑھتے ہوئے کریں گے جس میں لکھا ہے کہ ایودھیا میں مندر تھا اور اس وقت ایودھیا میں تین روڈ اور تین مینار بھی تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ان کا دعوی ہے کہ بابر نے کبھی مسجد کی تعمیر کرائی ہی نہیں تھی لیکن ہندو اس جگہ کی عبادت صدیوں سے کرتے چلے آرہے ہیں نیز انہوں نے مندر کا مقام بتانے کے لیے اسکند پران، والمیکی رامائن کا بھی حوالہ دیا۔

جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں یہ لکھا ہے کہ رام کا جنم ایودھیا میں ہوا تھا اس پر کسی کو اختلاف نہیں ہے لیکن اختلاف اس بات پر ہے کہ رام کا جنم کہاں ہوا تھا جس پر پی این مشرا نے کہا کہ وہی تو وہ کہے رہے ہیں کہ رام کا جنم اسی جگہ پر ہوا تھا جہاں مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔دوران بحث عدالت نے پی این مشراء کو کہا کہ مذہب اور ایمان پر بحث نہیں ہو رہی بلکہ معاملہ اس بات کا ہے کہ رام کا جنم کہاں ہوا تھا اور آیا بابری مسجد رام مندر منہدرم کر کے بنائی گئی تھی لہذا عدالت میں ایسے دلائل پیش کیے جائیں جو یہ ثابت کرتے ہوں کہ متنازعہ مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور اس پراپرٹی پر کس کا حق ہے۔

جسٹس چند ر چوڑ نے کہا کہ بینچ پی این مشراء کے دلائل کی سماعت بعد میں کرے گی فی الحال ایڈوکیٹ وی این سنہا کو بولنے کا موقع دیا جائے جو ہندو مہاسبھا کی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن جب وی این سنہا نے عدالت سے کہا کہ وہ ابھی بحث کرنے کے لیئے تیار نہیں ہیں، عدالت نے ایڈوکیٹ رنجیت کمار کو حکم دیا وہ بحث کریں جو سوٹ نمبر 1 میں پیش ہو رہے ہیں۔ اسی درمیان عدالت کا وقت ختم ہوگیا اور عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لئے ملتوی کردی۔

گزشتہ کل کی سماعت پر جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت سے گزارش کی تھی کہ وہ رام للا اور نرموہی اکھاڑہ کے درمیان موجود تضاد کی بھی سماعت کرلے نیز سوٹ نمبر 1کی بھی سماعت ہو تاکہ اس کے بعد وہ تمام بحث کا ایک ساتھ جواب دے سکیں۔

واضح رہے کہ بابری مسجد ملکیت مقدمہ معاملہ پر صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول اور دیگر سینئر وکلاء اور قانونی کمیٹی سے برابر رابطہ میں ہیں اور روزانہ کی تفصیلات معلوم کرنے اور آپسی صلاح ومشورہ کے بعد آگے کا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں، جمعیۃعلماء ہند کا پہلے دن سے یہ ماننا ہے کہ یہ ملکیت کا معاملہ ہے آستھا کا نہیں اسی لئے جمعیۃعلماء ہند نے 1950 فیض آباد ڈسٹرکٹ کورٹ میں دعویٰ داخل کیا تھا۔

بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت لیڈ میٹرسول پٹیشن نمبر10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ کنورادتیہ سنگھ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیاو دیگر موجود تھے۔