گاندھی کو قتل کرنے والی سونچ کے خلاف لڑائی۔ راہول گاندھی

,

   

راہول گاندھی نے اپنی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے حصہ کے طور پر کرناٹک میں بداناوالی کھادی گرام ادیویگ کیندرا کا دورہ کیاجہاں پر مہاتما گاندھی نے1927میں دورہ کیاتھا۔


میسور۔ مہاتما گاندھی جینتی کے موقع پرکانگریس لیڈر راہول گاندھی جو بھارت جوڑو یاترا پر ہیں اتوار کے روز بابائے قوم کے قتل کے مسائل کو اٹھایا اورکہاکہ یہ نظریاتی لڑائی جارہی ہے اور لوگوں کو اس میں شامل ہونے کی تلقین کی۔

راہول نے کہاکہ ”جیسے گاندھی جی نے برطانوی سامراج کے خلاف لڑائی کی تھی‘ آج ہم اس لڑائی کی طرف روانہ ہوئے ہی ں جو گاندھی کے قتل کے نظریہ کے خلاف ہے۔ اس سونچ نے عدم مساوات‘ تقسیم اور پچھلے اٹھ سالوں میں بڑی مشکل سے جیتی گئی ہماری آزادی کے کٹاؤپر مشتمل ہے“۔

راہول گاندھی نے اپنی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے حصہ کے طور پر کرناٹک میں بداناوالی کھادی گرام ادیویگ کیندرا کا دورہ کیاجہاں پر مہاتما گاندھی نے1927میں دورہ کیاتھا۔اتوار کے روزمیڈیا کوجاری کئے گئے ایک بیان میں راہول گاندھی نے کہاکہ ”ہم بھارت کے عظیم سپوت کا احترام کرتے ہیں اور ان کی یاد مناتے ہیں۔

ہماری یاد کو اس حقیقت سے مزیدپرجوش بنادیاگیاہے کہ ہم بھارت جوڑویاترا کے 25ویں دن میں ہیں‘ایک پدیاترا جس میں ہم ان کے عدم تشدد‘ اتحاد‘ مساوات او رانصاف کے راستے پر چل رہے ہیں“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”تشدد اور جھوٹ‘‘ کی سیاست کے خلاف بھارت جوڑویاتراکا کنیا کماری سے کشمیر تک کا پیغام عدم تشدد اورسوراج ہے“۔

راہول گاندھی نے کہاکہ ”سوراج کے کئی معنی ہیں۔ جو ہمارے کسانوں‘ نوجوانوں اور متواسط کارباریوں کی خواہش کے مطابق جوخوف سے آزادی چاہتے ہیں۔ ہماری ریاستوں کو ائینی آزادیوں پرعمل کرنے کی آزادی اورہمارے گاؤں کو پنچایت راج پر عمل کرنے کی آزادی اس میں شامل ہے۔

انہوں نے بیان میں کہاکہ ”یہ خودکی فتح بھی ہے‘ چاہے وہ بھارت یاتری ہو ں جو3200کیلومیٹرکی پیدل مسافت طئے کرنے کے لئے ہمارے ساتھ نکلے ہیں یاپھر کچھ راستہ ہمارے ساتھ چل کررہے ہوں۔یہ یاترا خوف‘ نفرت‘ اور تقسیم کے خلاف ہندوستانی عوام کی خاموش اورپرعزم آواز ہے۔

اقتدار میں رہنے والوں کے لئے گاندھی جی کی وراثت کود رست کرنا آسان ہوسکتا ہے‘ لیکن ان کے نقش قدم پرچلنا ان کے لئے بہت زیادہ مشکل ہے۔

بڑی تعداد میں مرد او ربچے اور خواتین پہلے ہی اس یاترا میں شامل ہیں۔

جن کا ماننا ہے کہ جن اقدار کے لئے گاندھی جی نے اپنی جان دی وہ اورہمارے ائینی حقوق خطرے میں ہیں“۔

انہوں نے بیان میں کہاکہ ”جب ہم میسور سے کشمیر کے سفر طئے کررہے تھے میں ہندوستان بھر کے اپنے ہم وطنوں سے کہہ رہا تھا کہ وہ عدم تشدد او ربھائی چارہ کے جذبے کے ساتھ ہمارے ساتھ چلیں“