یوم عرفہ کے اعمال اور فضائل

   

عبداللہ محمد عبداللہ
عَرَفَہ، ماہ ذوالحجہ کے نویں دن کو کہا جاتا ہے جس کی دین اسلام میں بہت اہمیت ہے لہٰذا اس مناسبت سے تاریخ اسلام میں کثیر تعداد میں روایات و احادیث ملتی ہیں۔ ’’عَرَفَۃ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو مادہ ’ع ر ف‘ سے بنایا گیا ہے اور اس کے معنی ’’کسی چیز کے آثار میں تفکر اور تدبر کے ساتھ اس کی شناخت اور ادراک کرنا‘‘ ہیں۔عرفہ کا نام سرزمین عرفات (مکہ مکرم کا وہ جگہ جہاں حاجی توقف کرتے ہیں) سے ماخوذ ہے، یہ پہاڑوں کے درمیان ایک معلوم اور شناخت شدہ زمین ہے اسلئے اسے عرفات کہا جاتا ہے۔یوم عرفہ مسلمانوں کے ہاں بافضیلت ترین ایام میں سے ایک ہے اور احادیث میں اس دن کے حوالے سے مختلف اعمال ذکر ہوئے ہیں جن میں سے افضل ترین عمل دعا اور استغفار کرنا ہے۔روایات میں ملتا ہے کہ یوم عرفہ، اللہ تعالی کی پہچان اور شناخت کا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت اور طاعت کی دعوت دی ہے۔اس دن حجاج کرام میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں اور دعا اور استغفار کے ساتھ حج جیسے فریضے کی ادائیگی کی توفیق نصیب ہونے پر خدا کا شکر بجا لاتے ہیں۔

قرآن اور سنت رسول میں ذی الحجہ کے پہلے دس ایام اور ان میں بھی یوم عرفہ کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے،لہذا ایک عقل مند انسان کے لیئے ضروری ہے کہ ان دنوں کو ضائع نہ کرے اور اپنے لیئے آخرت کی زاد راه تیار کرے اس سفر کے لیئے سامان جمع کرے جو انتہائی طویل ترین اور سخت ترین اور مشکل ترین ہے ایسا سفر جس پر سب کو جانا ہے چاہے کوئی اس کی تیاری کرے یا نہ کرے۔
۹؍ ذو الحجہ کا دن اس اعتبارسے بھی نہایت مبارک ہے کہ اس میں حج کا سب سے بڑا رکن ”وقوف عرفہ“ ادا ہوتا ہے، اور اس دن بے شمار لوگوں کی بخشش اور مغفرت کی جاتی ہے،مگر اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برکات سے غیر حاجیوں کو بھی محروم نہیں فرمایا: اس دن روزے کی عظیم الشان فضیلت مقرر کر کے سب کو اس دن کی فضیلت سے اپنی شان کے مطابق مستفید ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔
عرفات کی وجہِ تسمیہ کے متعلق بہت سے اقوال ہیں ؛جن میں سے تین کوعلماء کرام نے بطور خاص بیان فرمایا ہے :۱۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کو آٹھ ذی الحجہ کی رات خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کر رہے ہیں ، تو ان کو اس خواب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے یا نہ ہونےمیں کچھ تردد ہوا،پھرنوذی الحجہ کو دوبارہ یہی خواب نظرآیا تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سےہی ہے،چونکہ حضرت ابراھیم ؑکویہ معرفت اور یقین نوذی الحجہ کو حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے نو ذی الحجہ کو ’’یومِ عرفہ‘‘ کہتے ہیں ۔ ۲۔ نو ذی الحجہ کو حضرت جبرائیل نے حضرت ابراھیم ؑکوتمام مناسکِ حج سکھلائے تھے،و وہ اس دوران ان سے پوچھتے ، عرفتَ؟ یعنی جو تعلیم میں نے دی ہے، کیا تم نے اسے جان لیا؟ حضرت ابراہیم ؑ جواب میں کہتے؛ عرفتُ، ہاں میں نے جان لیا۔آ خر کار دونوں کے سوال وجواب میں اس کلمے کا استعمال اس جگہ کی وجہ تسمیہ بن گیا۔۳ ۔ حضرت ا دم ؑاور حضرت حوا ؓ جنت سے اتر کر اس دنیا میں آئے تو وہ دونوں سب سے پہلے اسی جگہ ملے، اس تعارف کی مناسبت سے اس کا نام عرفہ پڑ گیا اور یہ جگہ عرفات کہلائی۔

جس دن کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائی ہے:عظیم الشان اورمرتبہ والی ذات عظیم الشان چيز ہی کی قسم اٹھاتی ہے اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے (وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْدٍ ۔ البروج۳) قسم ہے اُس دن کی جو حاضر ہوتا ہے اور اُس کی کہ جس کے پاس حاضر ہوتے ہیں . روایات میں آیا کہ ’’شاھد‘‘ جمعہ کا دن ہے اور’’مشھود‘‘ عرفہ کا دن اس کے علاوہ شاہد ومشہود کی تفسیر میں اقوال بہت ہیں ۔ لیکن اوفق بالروایات یہی قول ہے۔ واللہ اعلم ۔

حضرت ابوہریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : یوم موعود قیامت کا دن اور یوم مشہود عرفہ کا دن اورشاھد جمعہ کا دن ہے۔(رواه الترمذي)اسی طرح حضرت ابو زبیرؓ نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وَالْفَجْرِ o وَلَيَالٍ عَشْرٍ o کے متعلق فرمایاہے:یہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے اور فرمایا کہ وتر سے مراد یومِ عرفہ اور شفع سے مراد یومِ نحر(یعنی دسویں ذی الحجہ) ہے۔(شعب الایمان) حضرت طلحہ بن عبید اللہ بن کریز کہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایسا کوئی دن نہیں ، جس میں شیطان اتنا زیادہ ذلیل و خوار ، حقیر اور غیظ سے پُر دیکھا گیا ہو جتنا وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے، جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔(شعب الایمان)