آجائے گا جب وقت تو مہلت نہیں دے گا

   

مودی کے 7 سال… ملک 70 سال پیچھے
لکشادیپ … زعفرانی فنگس کا حملہ
گنگا میں تیرتی لاشیں … مودی کو الیکشن کی دھن

رشیدالدین
’’ لوگ مرتے ہیں تو مرنے دو ہمیں کوئی پرواہ نہیں، ہمیں تو سیاسی فائدہ اور ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کی فکر ہے ‘‘۔ ملک میں کورونا بحران کے دوران وزیراعظم نریندر مودی کی سرگرمیاں ان الفاظ کی ترجمانی کر رہی ہیں۔ بسا اوقات زبان سے الفاظ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ عمل سے اظہار ہوجاتا ہے ۔ نریندر مودی کو وزیراعظم کے عہدہ پر 7 برس مکمل ہوچکے ہیں اور اس مجموعی مدت کی کارکردگی نے مودی اور بی جے پی کو بے نقاب کردیا ہے ۔ 30 مئی 2019 ء کو مودی نے دوسری میعاد کا حلف لیا تھا اور جملہ 7 برسوں کے وزارت عظمیٰ میں عوام کو راحت اور سکون کے بجائے مصیبت اور بدامنی کا تحفہ ملا۔ اچھے دن کے وعدہ سے عوام کو گمراہ کرتے ہوئے سات برس میں ملک کو 70 برس پیچھے ڈھکیل دیا۔ معاشرہ میں بعض افراد کو آئرن لگ کہا جاتا ہے اور ان کا ہر قدم بدشگونی تصور کیا جاتا ہے ۔ ملک کے پردھان سیوک موجودہ وقت کے آئرن لگ ثابت ہوئے اور ان کا ہر قدم ملک اور عوام کیلئے فائدہ مند ہونے کے بجائے تباہی اور بربادی کا موجب بنا۔ کوئی بھی اسکیم اور پالیسی عوام میں خوشحالی اور ترقی کا ذریعہ نہیں بن سکی بلکہ ہر دن ایک نئی مصیبت کا سامنا ہوا۔ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ، کالے دھن سے لے کر کورونا وائرس تک ہر قدم پر حکومت ناکام رہی ۔ ملک میں روزانہ ہزاروں افراد کورونا کا شکار ہوکر خاندانوں کو بے آسرا کرتے ہوئے دنیا سے کوچ کر رہے ہیں

لیکن نریندر مودی کو فرصت نہیں کہ کسی ہاسپٹل کا دورہ کر کے مریضوں کا حال چال دریافت کریں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں بھی نریندر مودی عوام کے درمیان نہیں رہے بلکہ ٹی وی چیانلس اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ آن لائین رہنے میں عافیت محسوس کی ۔ ایسا نہیں ہے کہ پردھان سیوک میں عوام کے دکھ درد کو محسوس کرنے والا دل نہیں ہے۔ مودی نے آن لائین پروگرام میں فرنٹ لائین ورکرس کی موت پر آنکھ میں آنسو لا لئے لیکن پتہ نہیں کیوں بین الاقوامی میڈیا نے اسے مگرمچھ کے آنسو اور کسی نے آسکر ایوارڈ کے مستحق ایکٹنگ سے تعبیر کیا ۔ پتہ یہ چلا کہ پردھان سیوک تو ملک کے 130 کروڑ عوام کیلئے ہیں لیکن ان کا دل صرف اپنے لوگوں کیلئے دھڑکتا ہے ۔ کورونا سے ملک بھر میں روزانہ ہزاروں افراد دم توڑ رہے ہیں لیکن مودی کو اپنے حلقہ لوک سبھا وارانسی کے ہیلتھ ورکرس کی موت کا دکھ ہے اور آنکھ سے بے ساختہ آنسو چھلک اٹھے۔ جس دارالحکومت دہلی میں مودی کا بسیرا ہے ، اسی دہلی میں علاج کی سہولتوں کی کمی سے روزانہ کئی اموات واقع ہورہی ہیں۔ قومی اور علاقائی نیوز چیانلس پریشان حال عوام کی کہانیاں بیان کر رہے ہیں لیکن مودی کی آنکھیں نہیں بھریں اور نہ کسی کو دلاسہ دینے کی زحمت گوارا کی ۔ برخلاف اس کے طوفان نے گجرات کا رخ کیا تو مودی فوری نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے فضائی معائنہ پر آبائی ریاست نکل پڑے ۔ اتنا ہی نہیں ایک ہزار کروڑ کی امداد کا اعلان کردیا ۔ پردھان سیوک کو کوئی سمجھائے کہ صرف گجرات اور وارانسی میں انسان نہیں بستے بلکہ ہر شہر اور گاؤں کے عوام بھی اتنی ہی ہمدردی اور توجہ کے مستحق ہیں۔ 30 مئی کو وزیراعظم کے عہدہ پر 7 سال اور دوسری میعاد کے دو سال کی تکمیل کے حوالے سے ان دنوں سوشیل میڈیا میں مہم چلائی جارہی ہے کہ جس طرح کورونا کو بھگانے کیلئے کبھی تالی تو کبھی تھالی بجائی گئی ، اب وقت آچکا ہے کہ پردھان سیوک کو اقتدار چھوڑنے کے لئے تالی یا تھالی بجائی جائے ۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ جن کے دامن پر گجرات کے ہزاروں بے قصوروں کے خون ناحق کے دھبے ہیں اور لاشوں پر سیاست کرنا جن کا شوق ہے، انہیں کورونا اموات کا کیا اثر ہوگا ۔ جس وقت ملک میں کورونا کی دوسری لہر عروج پر تھی ، موی ، امیت شاہ اور دوسرے بی جے پی قائدین مغربی بنگال ، آسام ، کیرالا ، ٹاملناڈو اور پڈوچیری کی انتخابی مہم میں مصروف تھے۔ مدراس ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر کرنے کی بات کہی لیکن وہ ماسٹر مائینڈ کو بھول گئے ۔ مرکز کے اشارہ پر الیکشن کمیشن نے کورونا کے باوجود انتخابی عمل جاری رکھا، لہذا مبصرین کے مطابق پردھان سیوک اور ان کے وزیر باتدبیر پر قتل کا مقدمہ چلنا چاہئے ۔ ملک میں کورونا کا قہر اور موت کا ننگا ناچ جاری ہے ۔ عوام کو ویکسین ، آکسیجن اور لائیف سیونگ انجکشن کی ضرورت ہے لیکن ان تمام سے بے پرواہ ہوکر مودی نے آر ایس ایس قائدین کے ساتھ اترپردیش اسمبلی انتخابات کی حکمت عملی پر اجلاس منعقد کیا ۔ ایسا نہیں ہے کہ اترپردیش کورونا سے پاک ہوچکا ہے۔ دہلی کے بعد سب سے زیادہ بدترین متاثرہ ریاستوں میں اترپردیش کا شمار ہوتا ہے ۔ ویسے بھی اسمبلی چناؤ کے لئے کافی وقت ہے لیکن اقتدار کی ہوس کا یہ عالم ہے کہ عوام کی لاشوں پر چل کر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ مودی اور ان کے ساتھیوں کے رویہ سے انسانیت شرمسار اور شیطان بھی یقیناً شرماگیا ہوگا ۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ گھر میں میت رکھتے ہوئے خوشیاں منائی جائیں۔
چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کا دل کیسے گوارا کیا کہ وہ اپنے گھر میں عوام کی موت کے درمیان چناؤ کی فکر کریں۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ جس کا گھر دار ، بال بچے ہوں ، وہ فطری طور پر نرم دل اور ہمدرد ہوتا ہے ۔ مودی ہو کہ یوگی وہ کس زمرہ میں آتے ہیں، اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ قارئین خود باشعور ہیں۔ مودی کاش اس بات کا جائزہ لیتے کہ گنگا میں بہائی گئیں ہزاروں لاشوں کے ذمہ دار کون ہیں۔ یہ لاشیں بہتی ہوئی کس طرح بہار تک پہنچ گئیں۔ لاشوں کو چرند اور پرند کی غذا بننے کیلئے کس نے چھوڑ دیا اور کورونا سے متاثرہ لاشوں سے وائرس کس قدر پھیلا ہے۔ گنگا کی صفائی کے لئے علحدہ وزارت تشکیل دے کر اوما بھارتی کو وزیر بنایا گیا تھا ۔ وہ گنگا کو بچائے بغیر ہی شائد کسی گھپا میں بند ہوچکی ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ مودی اور یوگی کی طرح اوما بھارتی بھی گھر دار کی نہیں بلکہ ’’آزاد‘‘ امیدوار ہیں۔ گنگا میں بہائی گئی لاشوں کی گنتی کے بجائے کامیابی کیلئے نشستوں کی گنتی کی گئی ۔ اس کے لئے سنگ دلی بھی معمولی لفظ ہوگا ۔ یہ تو اقتدار کی ہوس کی انتہا ہے۔

نریندر مودی کے 7 سالہ دور حکومت میں عوام کا تو کوئی بھلا نہیں ہوا لیکن سنگھ پریوار کے ایجنڈہ پر عمل آوری کے ذریعہ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس ضمن میں کئی ایسے قدم اٹھائے گئے جن کی توقع عوام نے نہیں کی تھی۔ کشمیر کے خصوصی موقف 370 کی برخواستگی ، طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ شریعت میں مداخلت اور عدالت کا سہارا لے کر بابری مسجدکی جگہ مندر کی تعمیرکا آغاز ۔ یہ ایسے فیصلے ہیں جن کے ذریعہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کو ہراساں کرنے اور ان کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی گئی ۔ سی اے اے کو پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کی گئی تاکہ پڑوسی ممالک کے ہندوؤں کو شہریت دی جاسکے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی شہریت کے خاتمہ کیلئے این آر سی اور این پی آر کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اگر کورونا وباء نہ آتی تو پتہ نہیں مودی ایک سال میں اور کیا گل کھلاتے۔ کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی کو اگست میں دو سال مکمل ہوجائیں گے ۔ وادی میں کئی عوامی قائدین ابھی بھی جیلوں میں بند ہیں۔ مودی نے کشمیری عوام سے انتخابات کا وعدہ کیا تھا لیکن کورونا کے باوجود پانچ ریاستوں میں الیکشن ہوئے لیکن مودی کو کشمیری عوام سے کئے گئے وعدہ کا خیال نہیں آیا۔ جس طرح مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کو تقسیم کرتے ہوئے ہندو اکثریتی علاقوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ، ٹھیک اسی طرح مرکزی زیر انتظام علاقہ لکشادیپ میں مسلمانوں اور ان کی تہذیب کو نشانہ بنانے کے لئے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر گجرات کے سیاستداں پرافل پٹیل کو مقرر کیا گیا۔ ڈسمبر 2020 ء سے پرافل پٹیل لکشادیپ میں زعفرانی فنگس پھیلا رہے ہیں۔ ملک کے عوام نے بلیک ، بلیو اور ایلو فنگس کے بارے میں تو سنا ہے لیکن لکشا دیپ میں زعفرانی فنگس تباہی مچا رہا ہے ۔ مسلم اکثریتی جزیرے میں شراب کی فروخت پر پابندی ختم کردی گئی اور بیف پر امتناع عائد کردیا گیا ۔ اس کے علاوہ دو سے زائد بچے رکھنے والوں کو پنچایت انتخابات میں حصہ لینے سے محروم کردیا گیا ۔ امیت شاہ کے قریبی پرافل پٹیل ہندوتوا ایجنڈہ پر تیزی سے عمل پیرا ہیں تاکہ لکشا دیپ کی تہذیب کا خاتمہ کرتے ہوئے وہاں فرقہ پرستی اور نفرت کا زہر گھول دیا جائے ۔ ایڈمنسٹریٹر کے طور پر ہمیشہ آئی اے ایس یا آئی پی ایس عہدیدار کا تقرر کیا جاتا رہا لیکن لکشا دیپ میں روایتی مسلم تہذیب کو نشانہ بنانے کیلئے فرقہ پرست ذہنیت کے حامل سیاستداں کو بھیجا گیا ہے جو لکشادیپ کو دوسرے کشمیر میں تبدیل کرتے ہوئے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتیں پرافل پٹیل کو واپس طلب کرنے کی مانگ کر رہی ہیں کیونکہ اگر انہیں برقرار رکھا گیا تو لکشادیپ میں نہ صرف امن ختم ہوجائے گا بلکہ وہاں کی سیاحت بری طرح متاثر ہوگی۔ پتہ نہیں بی جے پی کو مسلمانوں اور مسلم کلچر سے آخر اس قدر نفرت کیوں ہے؟ نامور شاعر منظر بھوپالی نے کچھ یوں مشورہ دیا ہے ؎
آجائے گا جب وقت تو مہلت نہیں دے گا
اے بگڑے ہوئے لوگو سدھر کیوں نہیں جاتے