آج کل شہر میں یہ کیا ہورہا ہے ؟

   

…سیدہ بتول فاطمہ بتولؔ…
شہرحیدرآباد جسے گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا تھا، کہاں ہے؟ یہ گنگا جمنی تہذیب یہاں کا رہن سہن، طور طریقہ، آدابِ زندگی ایک دوسرے کا میل ملاپ یہ سب کہاں گئے؟ جدھر دیکھو سب ایک دوسرے کا استحصال کررہے ہیں، بس ایک چیز باقی رہ گئی ہے، جب الیکشن کا دور آتا ہے تو ایک دوسرے کو خریدنے لگ جاتے ہیں۔ کبھی کانگریس کے لیڈرس تو کبھی تلگو دیشم ،کبھی بی جے پی تو کبھی ٹی آر ایس کے لیڈرس یا نیتاؤں کو کروڑوں روپئے کا لالچ دے کر خریدا جاتا ہے۔ بس ایک چیز باقی رہ گئی ہے۔ ایک دوسرے سے حسد، بغض ، کینہ کپٹ ۔ اس شہر کو جسے بانی شہر سلطان قلی قطب شاہ نے بڑے چاؤ سے بسایا تھا اور شہر کا نام حضرت علی ؓ کے لقب ’’حیدر کرار‘‘ کی مناسبت سے ’’حیدرآباد‘‘ رکھا گیا تھا، ایسے تہذیبی، ثقافتی، تاریخی ہیریٹیج شہر کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے اور ایسے شہر کو لوگ برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آج کل شہر میں یہ کیا ہورہا ہے؟ موسیٰ ندی کو لے لیجئے جہاں ایک زمانے میں صاف پانی بہتا تھا، آج اس میں تعفن بھرا گندہ پانی بہہ رہا ہے۔ چارمینار بس ڈپو کو دیکھئے جب تک ڈپو تھا، بسیں کھڑی ہوتی تھیں، صاف ستھرا تھا، لیکن اب وہاں پارکنگ کی جگہ بنا دی گئی ہے۔ کوڑا کرکٹ، کچرے کا انبار لگا ہوا ہے۔ وہاں پر گاڑیاں کھڑا کرنا اور لوگوں کا گذرنا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ ہمارے یہ نیتاؤں کو کیا ہوگیا ہے، الیکشن جیتنے سے پہلے بڑے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ جیتنے کے بعد ہر اچھی شاندار چیز پر ان کی نظر ٹکی رہتی ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد یہاں کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ کرنے کی بجائے اپنی ذاتی ملکیت بناکر توڑ پھوڑ کرکے اپنی عمارتیں کھڑی کرلیتے ہیں۔ بانی شہر قلی قطب شاہ سے لے کر آصف جاہ سابع میر عثمان علی خاں نے کئی شاندار عمارتیں بنوائیں۔ ان لوگوں نے کبھی کسی دوسرے کی عمارتیں توڑنے کی کوشش نہیں کی، نہ بگاڑنے کی لیکن آج کل کے یہ لوگ جِسے دیکھو توڑنے گرانے کی باتیں کررہا ہے۔ ہماری مجلس مقامی کو کیا ہوتا جارہا ہے اور ہمارے ڈپٹی سی ایم عالیجناب محمود علی صاحب ایسی چیزوں کو رکوانے کے بجائے خاموشی اختیار کرچکے ہیں۔ جب سے تلنگانہ الگ ہوا ہے، نہ بچوں کو اسکالرشپس صحیح مل رہی ہے، نہ نوجوان لڑکوں کو نوکریاں مل رہی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود لڑکے یا تو آٹو رکشا چلانے پر مجبور ہیں یا ٹھیلے بنڈیاں لے کر بازاروں میں گھوم رہے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ پر چیزیں بیچ کر زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بڑے شرم کی بات ہے کہ مقامی لوگوں کو نوکریاں دینے کے بجائے حکومت اضلاع کے لوگوں کو ترجیح دے کر مائناریٹی آفس یا بلدیہ کا دفتر یا پھر منڈل آفس میں باہر کے لوگوں کو بٹھایا جارہا ہے۔ ایسے میں شہر میں رہنے والے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ جس کو دیکھو اپنا گُلگلا تلنے میں لگا ہوا ہے۔ بچوں کے مستقبل کیلئے والدین کن پریشان کن حالات سے گذر رہے ہیں، ان کو پتہ نہیں حکومت کا سارا خزانہ بیکار محلات بنانے میں، نیتاؤں کو خریدنے میں خرچ ہورہا ہے۔ لڑکیوں کی شادیوں کے لئے 51,000 یا 75,000 یا ایک لاکھ روپئے صرف چند لوگوں کو دے کر کھلونوں کی طرح دل بہلایا جارہا ہے۔ عیدین پر واہیات قسم کے کپڑے بن جوڑ تقسیم کئے جاتے ہیں۔ وہ بانٹنے والوں کی نذر ہورہے ہیں۔ کئی لڑکیاں، B.Ed. کرکے نوکریوں کے انتظار میں اپنی عمر حد سے تجاوز کرکے گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔ صرف بلڈنگس ڈھاؤ، بلڈنگس ہٹاؤ یا ایک دوسرے کو لڑاؤ اس میں پانچ سال نکل جاتے ہیں۔
اب ’’اِرم منزل‘‘ کو لے لیجئے جو جنت کا نمونہ پیش کرتی قابل دید عمارت ہے ، اس کے پیچھے لگے ہیں۔ اس کو توڑ کر سیکریٹریٹ کی عمارت بنانے کی فکر میں چیف منسٹر کے سی آر کروڑوں روپئے خرچ کرنے والے ہیں۔ ریاست کی بیروزگاری دُور نہیں کی جاتی مگر فضول خرچی ہوجاتی ہے۔ ارے کبھی عثمانیہ دواخانہ تو کبھی چارمینار دواخانہ، کبھی اسمبلی کی عمارت تو کبھی زو پارک کو ٹھہرے دور لے جانے کی فکر میں جبکہ اتنی کھلی اراضی ہے کہ کہیں بھی سیکریٹریٹ کی عمارت تعمیر ہوسکتی ہے، کیوں شہر کی تاریخی عمارتوں کے پیچھے پڑے ہیں، کیا یہ آپ سب کو زیبا دیتا ہے۔
ارے! بنانا ہے تو قلعہ گولکنڈہ کو ازسرنو بنوایئے اور اپنا نام روشن کیجئے ، جہاں آپ ہر سال اپنا ترنگا یوم آزادی پر لہراتے ہیں تب اس کو سجایا جاتا ہے، پریڈ کروائی جاتی ہے۔ وہاں کی عمارت ڈیولپ کیجئے، مساجد، شاہی محلات کو سنواریئے، آج بھی دہلی کا لال قلعہ اصل حالت میں کھڑا ہے۔ یہ عمارت میں ہمارے شہر حیدرآباد کی شان ہوا کرتی تھیں۔ ایسی عمارتوں میں بچانا ہم شہریوں کا فرض ہے کیونکہ یہ حیدرآباد کو ورثے میں ملے ہیںجو یہاں کے رہنے بسنے والے حیدرآبادی باسیوں کے لئے ہیں، ورنہ آہستہ آہستہ شہر حیدرآباد سے یہ تمام نشانیاں مٹا دی جائیں گی اور شہر حیدرآباد کا وجود باقی نہیں رہے گا، نہ تو قلی قطب شاہ کا نام رہے گا، اور نہ ہی میر عثمان علی خاں کا نام باقی رہے گا۔
اسی لئے کہتے ہیں:
یہ خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہو تو کہرام مچادو
زندگی ریشم و کمخواب نہیں ائے دوست
تجھ کو جینا ہے تو پتھر کا جگر پیدا کر