آج کل کے اکثر مسلمان …

   

عرفان جابری
قارئین کرام! میں سیاسی و دیگر موضوعات پر لکھتا رہتا ہوں؛ آج اِس حساس موضوع پر اپنے تاثرات پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں؛ حساس موضوع اس لئے ہے، کیونکہ اپنا اور اپنی برادری (مسلمان) کا تعمیری و تنقیدی جائزہ لینا میرے خیال میں آسان کام تو نہیں۔ یہ تو سب پر عیاں ہے کہ آج ہم نہایت پُرآشوب دور سے گزر رہے ہیں، کرۂ ارض پر کہیں بھی نگاہ ڈالیں، مسلمانوں کا چاہے وہ امیر ہو کہ غریب یا پھر متوسط، کسی نہ کسی زاویہ سے بُرا حال ہے۔ آج کل کے اکثر مسلمانوں میں ایسا کوئی نہیں ملتا جیسے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یا فوری بعد کے چند سالہ اَدوار میں ہوا کرتا تھا۔ اب تو ہم ایسے حالات میں جی رہے ہیں جو قربِ قیامت کے بتائے گئے ہیں، رسول اللہ (ﷺ) کی اس ضمن میں پیشن گوئیاں یکے بعد دیگر ظاہر ہونے لگی ہیں۔ معلوم نہیں یہ دنیا کب تک قائم رہے گی، قیامت کب واقع ہوگی، کیا رواں صدی ہجری یا پھر عیسوی گزر پائے گی یا مزید صدیاں درکار ہیں؛ یہ سب علم اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔ لیکن کسی بھی انسان بالخصوص مسلمان کو قیامت کے ممکنہ وقوع کی تحقیق میں اپنا سر کھپانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اُس کی قیامت تو عملاً آنکھ بند ہونے (موت) کے ساتھ ہی شروع ہوجائے گی۔ موت کے ساتھ ’عمل‘ کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کی موت کا علم بھی اپنے پاس ہی رکھا ہے۔ چنانچہ حضرت انسان اور خاص طور پر مسلمانوں ]جنھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کنتم خیر امۃ اخرجت للناس… (سورہ اٰل عمران، آیت 110) قرار دیا ہے [ کو اپنی غیریقینی زندگی کو غنیمت جان کر اس قدر اچھے اعمال ضرور کرنے چاہئیں کہ ’غفور الرحیم ‘ سے کرم فرمائی کی امید رکھ سکیں۔ اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے احکام ذریعہ قرآن مجید اور رسول صلعم کے نمونۂ زندگی (صحیح الاسناد احادیث) کے مطابق اعمال کرنے پڑیں گے۔
صرف ایمان نہیں، عمل بھی چاہئے
اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ شیطان (ابلیس) بنی نوع انسان کا کھلا دشمن ہے (سورہ یوسف، آیت 5) اور وسوسے پیدا کرتا ہے (سورہ الناس، آیت 4-6)۔ چنانچہ ہم میں سے اکثر پیدائشی مسلمان جن کو کسی نومسلم کی طرح زبردست چیلنج سے گزرتے ہوئے ایمان کے دائرے میں آنے کی ضرورت نہیں پڑی، وہ اس بھرم میں رہتے ہیں کہ ہم تو ایمان والے ہیں (ایمان کتنا خالص ہے، اس میں شرکِ خفی تو نہیں، الگ بحث ہے)، اس کے بعد نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج و عمرہ، جھوٹ و غیبت سے اجتناب، تجارت میں سچائی، ملازمت میں دیانتداری، آمر (Employer) میں شفقت، ڈاکٹری میں انسانیت، انجینئرنگ میں دلجمعی، تدریس میں اخلاص، صحافت میں نیک نیتی وغیرہ وغیرہ میں ہم چاہے کتنی بھی ’ڈنڈی‘ مار لیں، کلمہ توحید (لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ) کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ ہمیں جنت کے انعام سے نواز دے گا۔ یہ مسلمان کو اللہ کے احکام اور رسولؐ کی تعلیمات پر عمل سے روکنے کیلئے بہت بڑا شیطانی فریب ہے۔ اگر یہ درست ہوتا تو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کا حکم 100 سے زائد جگہ کیوں دیا؟ زکوٰۃ، روزہ، حج و متعدد احکامات کو جابجا کیوں بیان کیا؟ کیا قرآن میں فضول باتیں ہوسکتی ہیں؟
دین کیساتھ دنیا کی فکر بھی اسلام کا حصہ
آج کل کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول صلعم کے اُسوۂ حسنہ کی تعمیل کرتے ہوئے ہی دنیا و دین میں ترقی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہم یہ قرآنی دعا پڑھتے رہتے ہیں ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار (سورہ البقرہ، آیت 201) مگر ہم نے شاید اسے عربی متن میں رَٹ لیا ہے، اس کا ترجمہ معہ تفسیر اپنی مادری زبان یا کوئی دیگر زبان میں سمجھنے کی خاطرخواہ کوشش نہیں کی۔ اگر اس آیت پر غور کرلیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بطور آزمائش دنیا میں رکھا ہے اور اس کے بعد ہی آخرت کا نمبر آئے گا۔ یعنی اپنی دنیا کو اسلام کے دائرے میں سنوارنا دین اسلام سے الگ نہیں بلکہ عین دین ہے۔ تب ہی آپ اِس کرۂ ارض پر اللہ تعالیٰ کے احکام نافذ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ دنیوی علوم اور جملہ وسائل کو اپنے قبضے میں لانے کے قابل بنیں، تب ہی آپ دیگر اقوام تک اسلام کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ اور بلاشبہ یہ بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
اسلام کا نمونہ بننا خاموش تبلیغ
انڈیا کی آبادی 130 کروڑ سے متجاوز ہے اور غیرسرکاری تخمینہ کے اعتبار سے تقریباً 20% مسلمان (تمام فرقہ جات) ہوں گے؛ یعنی لگ بھگ 80% غیرمسلم ہندوستانی ہیں۔ اگر وہ تادم آخر ایمان نہیں لاتے ہیں اور اُن کا جہنم کے ایندھن بننا طے ہوجائے تو کیا ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی بازپرس نہیں ہوگی؟ ضرور ہوگی۔ وہ اس لئے کہ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاقیامت کوئی نبی آنے والا نہیں، اور دین اسلام کی تبلیغ کی ذمہ داری امت مسلمہ پر ڈالی گئی ہے۔ اس ضمن میں مسلمان کو اسلام سب سے پہلے خود پر لاگو کرنا ہوگا ، یعنی جو مسلم خود اپنی عملی زندگی میں اسلام کا نمونہ بن جائے، وہ دوسروں بالخصوص غیرمسلموں کیلئے ازخود مثال بن جاتا ہے۔ لوگ اُس کی طرف کھنچے آتے ہیں، اُس کی باتوں اور اُس کے عمل و برتاؤ سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ باتیں اسلام کی طرف اُن کی رغبت کا موجب ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک ہر مسلم پر عملاً ذمہ داری کا معاملہ ہے، ایک نکتہ ہے کہ کون کس قدر مکلف ہے، کس کس پر مکلف ہے، دیکھنا ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک باپ پر اللہ تعالیٰ نے اس کی بیوی اور اولاد (نابالغ) کی ذمہ داری ڈالی ہے؛ کسی شوہر سے اس کی شریک حیات اور بچوں (نابالغ) کے تعلق سے پوچھ ہوگی۔ اس مرحلے کے بعد اپنے پڑوس اور زندگی میں شب و روز جن مسلمانوں اور غیرمسلموں سے سابقہ پڑتا ہے، اُن تک اچھی باتیں اور اچھا پیام (دین اسلام) پہنچانے کی ذمہ داری آتی ہے۔ مختصراً یوں سمجھ لئے کہ کسی ریاست کا عام شہری وہاں کے غیرمسلم وزیراعلیٰ کو اسلام کی دعوت دینے کا مکلف نہیں ہوتا؛ یہ اور بات ہے کہ وہ شہری تبلیغ کی نیت سے غیرمعمولی محنت کرتے ہوئے حکمراں طبقہ تک رسائی حاصل کرے اور اپنا دینی فریضہ ادا کرے تو قابل تحسین بات ہے۔
ڈسپلن و اخلاق کی اسلام میں اہمیت
مسلمانوں کو چاہے لڑکے ہو یا لڑکیاں، نوجوان ہو کہ ادھیڑ عمر والے آج یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ ڈسپلن، اچھے اخلاق و کردار کا اسلام کی ترقی و ترویج میں بہت اہم رول رہا ہے۔ محمد بن عبداللہ کا نبوت ملنے سے قبل کا وہ واقعہ کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جب آپ اور ایک شخص کسی تجارتی معاملت کے سلسلہ میں ایک روز بعد فلاں جگہ ملاقات کے وعدے کے ساتھ جدا ہوتے ہیں، پھر وہ شخص کے ذہن سے بات نکل جاتی ہے جبکہ آپ وعدے کے مطابق طے شدہ مقام پر پہنچ کر اُس شخص کا انتظار کرتے ہیں، دن گزر جاتا ہے مگر آپ وہاں سے روانہ نہیں ہوتے اور مختلف روایتوں کے مطابق ایک یا دو روز تک منتظر رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ شخص ندامت کے ساتھ وہاں پہنچتا ہے اور آپ کے وعدے کی پاسداری اورحسن اخلاق سے ازحد متاثر ہوتا ہے۔ سیرت نبوی صلعم اور صحابہ کرام کا دور ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج مسلمانوں کو اگر دونوں جہاں کی کامیابی چاہئے تو سوشل میڈیا پر فضول وقت گزاری چھوڑ کر قرآن و سنت کی طرف لوٹنا ہوگا۔ اسلام نہ حصول عصری ٹکنالوجی سے روکتا ہے اور نا ہی دنیا و مافیہا پر تحقیق کے ذریعے ایجادات سے منع کرتا ہے۔ بلکہ یہ تو عین اسلام ہے۔ بس ہماری زندگیوں میں شب و روز کا ڈسپلن شامل ہوجائے، ہم وقت اور توانائی کی قدر کرنے لگیں، بُری مثالوں پر نظر ڈالنے کے بجائے سیرت نبوی صلعم کو آئیڈیل بنائیں تو مجھے بتائیے کہ اِس دنیا اور پھر آخرت میں ہم کیونکر ناکام ہوسکتے ہیں؟
آخری بات
مشہور قول ’’کون کہتا ہے نہ دیکھو، کیا کہتا ہے وہ دیکھو‘‘ کے مصداق یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں یاأیھا الذین آمنوا ادخلوا في السلم کافۃ… (سورہ البقرہ، آیت 208) پر پورا کھرا اُترنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا؛ سب کیلئے ’مثالی‘ شخص نہیں ہوں، بلکہ پوری طرح غلطیوں سے پاک تو شاید اِس دنیا میں کوئی نہیں۔ ’غلطی‘ تو ہم سب کے جد اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے بھی ہوئی مگر اُسے ’سب سے معصوم غلطی‘ کہنا بیجا نہ ہوگا؛ پھر انھوں نے خالق کائنات سے معافی چاہی اور کامیاب ہوئے۔ بہرحال یہ دنیا ہی اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کی آزمائش کیلئے بنائی ہے اور ہمارے خالق حقیقی کا ارشاد ہے کہ ’’ہم تمہاری آزمائش کریں گے‘‘ (سورہ البقرہ، آیت 155)۔ چنانچہ حضرت انسان بالخصوص مسلمانوں کو دنیا کے ساتھ ساتھ اُخروی کامیابی کیلئے اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔ ہر گزرتے لمحہ نہ سہی ہر گزرتے دن کا ہم جائزہ لینے لگیں تو ہماری دنیا و آخرت سنور سکتی ہے، ان شاء اللہ! میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ہر نماز کے بعد اپنی دعاؤں میں یہ قرآنی دعا رب زدنی علما (سورہ طہٰ، آیت 114) ضرور پڑھا کیجئے۔
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com