آر ایس ایس کی امبیڈکر سے جھوٹی ہمدردی

   

رام پنیانی
رام مادھو آر ایس ایس لیڈر ہیں اور بی جے پی میں سرگرم کردار ادا کرتے ہیں ۔ بی جے پی کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے سخت محنت کرتے ہیں ۔ انھوں نے ’’ اپنی تاریخ جانئے ‘‘ کے زیرعنوان ایک مضمون لکھا ۔ (3 ڈسمبر کو شائع ) اس مضمون میں ’’رام مادھو نے دلیل پیش کی بلکہ ددعویٰ کیا کہ کانگریس لیڈر اور گاندھی خاندان کے چشم و چراغ راہول گاندھی امبیڈکر اور ساورکر کو سمجھ ہی نہیں پائے ۔ رام مادھو دراصل ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے پیدائشی مقام مہو ( مدھیہ پردیش ) میں بھارت جوڑو یاترا کے دوران راہول گاندھی کے دیئے گئے بیان پر تنقید کررہے تھے ۔ راہول گاندھی نے بی جے پی اور آر ایس ایس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ سنگھ پریوار ، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے تئیں جھوٹی ہمدردی دکھا رہا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آر ایس ایس ہی تھی جس نے امبیڈکر کے پیٹھ میں چھرا گھونپا ، اُن سے غداری کی ۔
رام مادھو کے مطابق راہول گاندھی کے بیان کے برعکس وہ کانگریس ہی تھی جس نے ڈاکٹر امبیڈکر کے پیٹ میں چھرا گھونپا ، اپنے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کیلئے آر ایس ایس لیڈر نے ڈاکٹر امبیڈکر کی تحریروں اور مکتوبات سے ایسے نصف حوالے دیئے جس سے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ گاندھی ، نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل ان ( امبیڈکر ) کے مخالف تھے ۔ انھوں نے اس سلسلہ میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے انتقال پر پارلیمنٹ میں نہرو کے تعزیتی پیغام کے ایک چنندہ حصہ کو پیش کیا اور اس کے ذریعہ بتانے کی کوشش کی کہ پنڈت نہرو امبیڈکر کے تئیں احترام کا جذبہ نہیں رکھتے تھے ۔ تعزیتی پیغام کا وہ حصہ جو امبیڈکر کے شاندار احترام اور ان کے کارناموں و نمایاں خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے مادھو نے اسے جان بوجھ کر چھوڑدیا ۔ اس پیغام کا جان بوجھ کر چھوڑا گیا حصہ کچھ اس طرح تھا ’’لیکن وہ اس شدید احساس کی علامت تھے ، جسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ ہندوستان کے دبے کچلے کمزور طبقات کا وہ شدید احساس جو ہمارے ماضی کے سماجی نظاموں کے تحت صدیوں سے کچلا جارہا تھا اور ان نظاموں کی کئی ناانصافیوں کو وہ صدیوں سے جھیلتے رہے اور یہ بھی کہ ہم اُس بوجھ کو اچھی طرح پہچانتے بھی ہیں اور جسے ہم سب کو اُٹھانا چاہئے اور اُسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے …‘‘
لیکن میں نہیں سمجھتا کہ کہنے کے انداز یا زبان و بیان کے علاوہ کوئی بھی اس میں اپنے احساس کی شدت کی درستگی کو چیلنج کرے ۔ ایسا معاملہ جسے ہم تمام کو محسوس کرنا چاہئے اور شائد اُس سے بھی زیادہ اُن لوگوں کو جو اپنے آپ میں یا اپنے گروہوں یا طبقات میں رہیں ہیں اسی کا شکار ہونا پڑا ۔ ہندوستان میں سماجی اصلاح کے مسیحا کا کیا شاندار احترام ہے !
امبیڈکر اور ساورکر کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق
پونہ معاہدہ ایک غیرنقل شدہ معاہدہ ہے جس پر گاندھی اور امبیڈکر پہنچے تھے جبکہ انگریز تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت اچھوتوں کو 71 علحدہ الکٹوریٹس دینا چاہتھے تھے ۔ اس معاہدہ نے انھیں 148 محفوظ نشستیں دیں۔ پروڈا جیل میں جہاں امبیڈکر گاندھی سے ملاقات کیلئے گئے تھے دونوں کے درمیان جو بات چیت ہوئی وہ کھل کر ہوئی اور کھل کر سامنے بھی آئی ۔ اس موقع پر گاندھی نے امبیڈکر سے کہا تھا میری پوری ہمدردی آپ کے ساتھ ہے ۔ ڈاکٹر میں آپ کے ساتھ ہوں ، آپ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس لئے میں آپ کے ساتھ ہوں‘‘۔ جواب میں ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا ’’ ہاں ! مہاتما جی اگر آپ میرے لوگوں کا حق دیتے ہیں تو پھر آپ ہم تمام کے عظیم ہیرو ہیں ‘‘۔
گول میز کانفرنس سے پہلے امبیڈکر کی مہا دچاودر تحریک تھی جسے ستیہ گرہ کہا جاتا تھا اور یہ تحریک مزاحمت سے متعلق گاندھی کے خطوط اور طرز پرتھی ، دلچسپ بات یہ رہی کہ شہ نشین پر صرف ایک ہی تصویر تھی اور وہ تصویر گاندھی کی تھی ۔ منوسمرتی کو نذر آتش کیا گیا تھا ۔ وہ وہی منوسمرتی تھی جسے رام مادھو کے نظریاتی سرپرستوں ساورکر اور گولوالکر نے بطور خاص سراہا تھا اس پر عمل کی پرزور وکالت کی تھی ۔ ساورکر نے منوسمرتی کے بارے میں کچھ یوں لکھا ’’منوسمرتی وہ مذہبی کتاب ہے جو ہماری ہندو قوم کیلئے ویدوں کے بعد سب سے زیادہ پوجا کے لائق ہے ، جو زمانے قدیم سے ہماری ثقافت رسوم و رواج ، فکر و عمل کی بنیاد بنی ہوئی ہے ۔ صدیوں سے اس کتاب نے ہماری قوم کی باطنی و روحانی پیشرفت کو Codified کیا اور آج بھی کروڑو ہندو اپنی زندگی اور عمل میں جن اصولوں کی پیروی کرتے ہیں وہ منوسمرتی پر مبنی ہے۔ آج منوسمرتی ہی ہندو قانون ہے اور وہی بنیاد ہے ۔
پتیت پون مندر تمام کیلئے کھولنے اور بین ذات پاک کھانے ( مختلف ذاتوں کے ایک ساتھ کھانے ) کی حوصلہ افزائی پر امبیڈکر کی جانب سے ساورکر کی ستائش کو منوسمرتی کے احکام کیلئے ان ( ساورکر ) کی بنیادی وابستگی کے مجموعی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے ۔ اس اصلاحاتی عمل میں ان کی کوششیں انفرادی حیثیت میں تھیں۔ ان کے سکریٹری اے ایس بھیڈے کے مطابق (ونائیک دامودر ساورکر کا طوفانی پروپگنڈہ ڈسمبر 1939 ء تا اکٹوبر 1941 ء ’’ پروپگنڈہ پڑھیں ‘‘(دوروں انٹرویوز سے متعلق صدر کی ڈائری کے اقتباسات سے ) ساورکر نے تصدیق کی کہ وہ یہ سب کچھ اپنی انفرادی حیثیت سے کررہے ہیں اور اس میں ہندو مہاسبھا کو شامل نہیں کریں گے ۔ ان مراحل میں جہاں تک اچھوتوں کے مندر میں داخلے کی بات ہے اس نے 1939 ء میں باضابطہ تصدیق کی کہ ہندو مہاسبھا قدیم مندروں میں اچھوتوں وغیرہ کے داخلے سے متعلق لازمی قانون سازی کرنے یا اُس کی حمایت نہیں کرے گی نیز رام مادھو اس امر کو پوری طرح نظرانداز کرنا چاہتے ہیں کہ امبیڈکر نے ساورکر کا جناح کا ساتھ موازنہ ( تقابل ) کرتے ہوئے کیا لکھا تھا ۔
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے اس بارے میں کچھ یوں لکھا تھا ’’یہ بڑا عجیب سا لگتا ہے کہ مسٹر ساورکر اور مسٹر جناح ایک دوسرے کے مخالف ہیں ۔ ایک قوم بمقابلہ دو قومی نظریہ سے وہ دونوں مکمل طورپر اتفاق کرتے ہیں ۔ دونوں دو قومی نظریہ پر نہ صرف متفق ہیں بلکہ اس پر اصرار بھی کرتے ہیں کہ ہندوستان میں دو قومیں ہیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان قوم ۔ جہاں تک ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کوکابینہ میں شامل کئے جانے کا سوال ہے رام مادھو کا اس بارے میں خیال ہے کہ صرف جگجیون رام کے اصرار پر ہی انھیں کابینہ میں شامل کیا گیا تھا جبکہ سچائی یہ ہے کہ گاندھی اور نہرو کا یہ ایقان تھا کہ یہ ملک ہے جسے آزادی ملی ہے کانگریس کو نہیں ، چنانچہ کابینہ کے ابتدائی ارکان میں سے 5 غیرکانگریسی تھے ۔ گاندھی نے نہ صرف امبیڈکر کو کابینہ کا حصہ بنایا بلکہ دستور ہند کی مسودہ ساز کمیٹی کی سربراہی یا قیادت ڈاکٹر امبیڈکر کو تفویض کئے جانے کے خواہاں بھی تھے اور جیسے ہی دستور ہند منظرعام پر آیا رام مادھو کی سرپرست تنظیم ( آر ایس ایس ) نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سنگھ کے ترجمان اخبار آرگنائزر نے سخت الفاظ میں دستور ہند پر تنقیدی حملے کئے ۔
آر ایس ایس کے انگریزی ترجمان اخبار آرگنائزر نے 30 نومبر 1949 ء کو اپنے ایک اداریہ میں ڈاکٹر امبیڈکر کی سربراہی میں تیار کردہ دستور کو مسترد کردیا اور قدیم منوسمرتی کو ہندوستانی دستور یا آئین کے طورپر ماننے کا مطالبہ کیا لیکن ہمارے دستور میں قدیم بھارت میں منفرد دستوری فروغ کا کوئی حوالہ نہیں ہے ۔ منوکے قوانین اسپارتا کے لائیکرگس Lycurgus یا فارس کے سولو Solo سے کافی پہلے تحریر کے گئے تھے چنانچہ آج تک منوسمرتی میں بیان کئے گئے اس کے قوانین خودبخود اپنے تئیں فرمانبرداری اور مطابقت کا جوش دلاتے ہیں لیکن ہمارے دستوری پنڈتوں کے پاس اس کا کوئی مطلب ہی نہیں ۔
ایک اور حقیقت یہ رہی کہ ڈاکٹر امبیڈکر کے ذریعہ تیار کردہ ہندو کوڈ بل کو کمزور کرنے کی وجہ سے اُن کا درد سب جانتے تھے اور ہیں ۔ کانگریس میں بھی کچھ عناصر جنھوں نے اس کی مخالفت کی اور اس سے بڑھکر وہ آر ایس ایس کا احتجاج تھا جس نے بل کو کزور کرنے پر مجبور کیا جس سے ڈاکٹر امبیڈکر جیسے عظیم سماجی مصلح کو بہت دکھ ہوا جو ان کے استعفیٰ کا باعث بنا ۔ تقسیم پر اپنی کتاب کے نظرثانی شدہ ایڈیشن میں امبیڈکر صاف طورپر لکھتے ہیں کہ اگر ہندوراج ایک حقیقت بن جاتا ہے تو یہ اس ملک کیلئے سب سے بڑی آفت ہوگی ۔ آزادی ، مساوات اور اخوت کیلئے یہ بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ یہ جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ ہندو راج کو کسی بھی قیمت پر روکا جانا چاہئے۔