آسام میں نئے چیف منسٹر

   

انعام دوست عشرت دیدار ہی نہیں
سینے میں ایک مہر درخشاں بھی لے چلو
آسام میں نئے چیف منسٹر
بی جے پی نے آسام میں اپنا اقتدار برقرار رکھا ہے اور وہاں تقریبا دو دن کی رسہ کشی کے بعد بالآخر ہیمنمتا بسوا شرما کو ریاست کا چیف منسٹر بنانے کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ مسٹر سونووال کوگذشتہ میں چیف منسٹر بنایا گیا تھا اور ہیمنتا بسوا شرما ریاست کے وزیر تھے تاہم اس بار سونووال کو نظر انداز کرتے ہوئے شرما کو چیف منسٹر کی ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مسٹر شرما اکثر و بیشتر اپنے متنازعہ اور اشتعال انگیز بیانات اور ریمارکس کیلئے جانے جاتے ہیں اور وہ کئی مواقع پر قوانین کی خلاف ورزی بھی کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کی جانب سے انہیںچیف منسٹر کی ذمہ داری کا سونپنا عوام میں اندیشوں کو جنم دینے کے برابر ہے ۔ ریاست میں بی جے پی کو دوسری مرتبہ اقتدار حاصل ہوا ہے اور اس نے دوسری مرتبہ میں ہی اپنے چیف منسٹر کو تبدیل کردیا ہے ۔ ریاست آسام میں کئی اہمیت کے حامل مسائل ہیں جن کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ مسٹر سونووال کو ہی اس عہدہ پر برقرار رکھا جائیگا تاہم ایسا ہوا نہیں ہے اور ایک کٹر موقف رکھنے والے مسٹر شرما کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ اب جبکہ مسٹر شرما ریاست میںچیف منسٹر کے عہدہ کیلئے منتخب ہونے والے ہیں ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور انہیں اپنے رویہ اورموقف میںنرمی پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ انہوں نے ابتدائی ایام سے ہی جدوجہد کی ہے ۔ وہ اسٹوڈنٹ لیڈر بھی رہے تھے ۔ اور بتدریج ترقی کرتے ہوئے وہ ریاست کے چیف منسٹر کے عہدہ تک پہونچ رہے ہیں ایسے میں انہیں اپنے موقف میں لچک اور نرمی پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اشتعال انگیزی اور کٹر موقف کے ذریعہ ریاست کو چلانا یا ریاستی نظم و نسق کو عوام کی بہتری کیلئے کام کرنے کا موقع دینا ممکن نہیں ہوپائیگا ۔ ایسے میںاہمیت کے حامل مسائل کو سنجیدگی سے غور و فکر کرتے ہوئے حل کرنے کی ضرورت ہوگی اور اس کیلئے خود چیف منسٹر کا اپنا موقف لچکدار رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ ریاست میں جو بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل ہیں ان کو حل کرنے کیلئے مسٹر شرما کو ایک جامع اور مبسوط حکمت عملی کے ذریعہ اپنے کام کاج کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہوگی
ریاست میں جو انتہائی اہمیت کے حامل مسائل ہیں ان میں سی اے اے اور این آر سی بھی شامل ہیں۔ این آر سی کے نام پر آسام میں لاکھوں شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کو کہا جا رہا ہے ۔ شہریت ثابت کرنا ہندوستانی عوام کا کام نہیں ہے بلکہ تحقیقاتی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پتہ چلائیں کہ جو ہندوستانی شہری نہیںہیں وہ کہاں سے آئے ہیں۔ ان امور پر مسٹر شرما کو پوری ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوگی کہ جس عوام نے انہیں ووٹ دے کر چیف منسٹر کی کرسی تک بھیجا ہے انہیں ہی اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے نہ کہا جائے ۔ ریاست میں عوام کو کئی طرح کے بنیادی مسائل کا بھی سامنا ہے ۔ خاص طور پر چائے کے باغات میں کام کرنے والے ورکرس کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا ہے ۔ انہیںمزدوری کم مل رہی ہے ۔ انہیںکئی اور حقوق بھی نہیں مل پا رہے ہیں۔ ان کو ان کا حق دلانے کیلئے ریاستی حکومت کو عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک کٹر اور جارحانہ موقف رکھتے ہوئے ریاست کے مسائل کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں مل سکتی ۔ ایسے رویہ سے ریاست کے عوام کی فلاح و بہبود کو بھی یقینی نہیں بنایا جاسکتا ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ سنجیدہ موقف اختیار کیا جائے اور عوام کی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں۔
انتخابات کے دوران جب مہم چل رہی تھی ریاست کے عوام سے بی جے پی حکومت نے اور اس کے قائدین نے کئی وعدے بھی کئے ہیں۔ ان وعدوں کو پورا کرنے کیلئے حکومت کو عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس کیلئے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے ۔ عوام کی رائے حاصل کرتے ہوئے انہیں ان کے حقوق دینے پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے ۔ چائے کے باغات کے ملازمین کو ان کا حق دلانے کیلئے جامع پروگرام تیار کیا جانا چاہئے ۔ ریاست میں معاشی سرگرمیوںکو تیز تر کرنے کیلئے حکومت کو سرگرمی سے کوششیں کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ہیمنتا بسوا شرما کا جو سفر طلبا تنظیم سے شروع ہوا تھا اس کو انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے طلبا کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کیلئے پالیسیاں بنانی چاہئیں۔ ایک مثبت سوچ اور مثبت جذبہ کے ساتھ اگر کام کیا جاتا ہے تو ریاست کی صورتحال کو بالکل بدلا جاسکتا ہے ۔