آلوک ورما کو ’ٹھکانے‘ لگا دیا گیا، پھر بھی امیت شاہ خوفزدہ؟

   

راویش کمار
ریٹائرڈ جسٹس اے کے پٹنائک اس نتیجے پر پہنچے کہ انھوں نے سنٹرل ویجلنس کمشنر کی آلوک ورما سے متعلق رپورٹ میں کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں پایا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس پٹنائک سے صرف اتنا کہا تھا کہ انھیں سی وی سی کی رپورٹ کا جائزہ لینا چاہئے۔ پٹنائک نے اندرون چودہ یوم تحقیقات کرلی اور اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کی۔ انھوں نے ورما کو اپنا عہدہ برقرار رکھنے کا موقع بھی دیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سی وی سی نے اسپیشل ڈائریکٹر راکیش آستھانہ کے دستخط شدہ بیانات بھیجے۔ جسٹس پٹنائک کا بیان ’انڈین اکسپریس‘ میںشائع ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سنٹرل ویجلنس کمشنر کی رپورٹ حرفِ آخر نہیں ہے۔ جسٹس پٹنائک کا بیان ہے کہ میری رپورٹ میں، میں نے کہا ہے کہ بدعنوانی کا کوئی ثبوت سنٹرل ویجلنس کمشنر کی رپورٹ میں عائد کوئی بھی الزام میں پایا نہیں گیا ہے۔ جسٹس پٹنائک نے یہ رپورٹ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کو پیش کی۔ جسٹس پٹنائک نے یہ بھی بتایا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ چاہے کوئی اعلیٰ اختیاری کمیٹی بھی فیصلہ کرتی، تب بھی اسے ایسی جلدبازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ خصوصیت سے اس لئے کہ معاملہ سپریم کورٹ کے جج سے رجوع ہے، اس لئے کمیٹی کو گہرائی سے غوروخوض کرنا چاہئے تھا۔
اب آپ کو یہاں بعض نکات سمجھنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس پٹنائک سے کہا کہ ورما کے خلاف کیسوں کی تحقیقات کیجئے۔ اگر جسٹس پٹنائک نے اپنی رپورٹ دے دی، تو پھر کیوں سپریم کورٹ نے اس رپورٹ پر اپنا کوئی موقف اختیار نہیں کیا؟ کیا اعلیٰ اختیاری کمیٹی نے سپریم کورٹ آرڈر پر بنائی گئی جسٹس پٹنائک کی رپورٹ پر غور کیا؟ کیا سی وی سی رپورٹ کو پٹنائک کی رپورٹ کے مقابل زیادہ اہمیت دی گئی؟ کیا جسٹس سیکری نے سپریم کورٹ کی رپورٹ پر کوئی موقف اختیار کیا؟

لہٰذا، اس کیس میں آخر کیا ہوا؟ سی وی سی نے ورما کے خلاف کئی الزامات عائد کئے۔ حکومت نے ورما کو ہٹا دیا اور ورما سپریم کورٹ سے رجوع ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کہتا ہے کہ ورما کے خلاف سی وی سی کا پیش کردہ مواد ناکافی ہے کہ انھیں عہدہ سے ہٹایا جاسکے۔ ورما کو بازمامور کیا جاتا ہے۔ اب وزیراعظم کی سربراہی والی کمیٹی ورما کو وہی غیرمصدقہ الزامات کی بنیاد پر عہدہ سے برخاست کردیتی ہے۔ موافق حکومت ’بھکت‘ سوشل میڈیا پر یہ بات پھیلاتے ہیں کہ جسٹس سیکری نے رپورٹ میں تصحیح بھی کی۔ شبہ کی سوئی وزیراعظم کی طرف مڑتی ہے کہ وہ ورما کو اس لئے ہٹانا چاہتے تھے کہ رفال کیس میں تحقیقات کو روکا جاسکے۔ ورما کو ہٹانے کی پہلی کوشش سپریم کورٹ میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے۔ وزیراعظم کو سبکی سے بچانے سے کیلئے ’بھکت‘ جسٹس سیکری کی اختلافی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے اس کی تشہیر کررہے ہیں۔دریں اثناء اسپیشل ڈائریکٹر راکیش آستھانہ دہلی ہائی کورٹ سے رجوع ہوئے کہ ورما کے خلاف اور خود اُن کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کیا جائے۔ اس کے جواب میں دہلی ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو حکم دیا کہ اندرون دس ہفتے تحقیقات مکمل کرلی جائے۔

اب ایک اور پہلو کا جائزہ لیجئے۔ ہر چیز منظرعام پر ہے۔ ادارہ جات ’غلام‘ بنائے جاچکے ہیں۔ اکثر ذرائع ابلاغ کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ پھر بھی کیوں امیت شاہ خوفزدہ ہیں کہ اگر 2019ء میں ہار جائیں تو کیا خود وہ بھی ’غلام‘ بنائے جائیں گے؟ کیا بی جے پی ورکرز خائف ہیں؟ فتح کو جیتنے کی راہ کیا ہے، کیونکہ اگر ہم ہار جائیں تو شاید ہم بھی غلام بن جائیں گے؟ اس سے قبل سوال یہ ہے کہ آیا بی جے پی ہار رہی ہے، کیا اس کے ورکرز اس سے پست حوصلہ ہوچکے ہیں، جو کچھ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں پیش آیا؟ امیت شاہ کو کس کے غلام بن جانے کا خوف ہے؟ وہ اپنی حرکتوں کے اتنے اسیر نہیں ہوئے جیسے وہ شکست کا خوف محسوس کرنے لگے ہیں؟ امیت شاہ کو ہندوستان کی عظیم آرمی اور ملک کے اداروں پر بھروسہ بھی نہیں ہے؟ پھر کیوں وہ ایسا کہتے ہیں کہ اگر وہ 2019ء میں ہار جائیں تو دو سو سالہ غلامی آجائے گی؟ دہلی میں امیت شاہ نے کہا ہے کہ 2019ء کی (انتخابی) لڑائی پانی پت کی تیسری لڑائی ہے! دو سو سال کی غلامی مراٹھا پیشواؤں کی شکست کے بعد آئی تھی۔ کیا بی جے پی اپنے حریفوں کو احمد شاہ ابدالی سمجھتی ہے؟ اس طرح کے مفروضہ کی اساس کیا ہے؟ امیت شاہ نے اسی نوعیت کے تمثیلات اور نعرے محفوظ کررکھے ہیں جو فرقہ پرستی کے دائرے میں کافی موزونیت رکھتے ہیں۔ بی جے پی ورکرز کو غوروخوض کرنا چاہئے۔ امیت شاہ کو شاید کسی خندق اور کسی کھڈے میں چھلانگ لگانا پڑے گا۔ تقریباً پانچ سال بعد بھی کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا ہے جسے عوام دیکھ رہے ہیں! آیا اُن کے دیگر تمثیلات جیسے ’غلامی‘ اور ’پانی پت کی تیسری لڑائی‘ کو عوام قبول کریں گے؟
حالانکہ سپریم کورٹ نے آلوک ورما کے کیس میں واضح فیصہ نہیں دیا، پٹنائک نے اس کے حکمنامہ پر بنائی گئی رپورٹ پر غور نہیں کیا، پھر بھی آلوک ورما کو عہدہ سے ہٹا دیا گیا؛ اس سے قبل جئے شاہ کی نیوز کو دبا دیا گیا؛ جج لویا کی نیوز پر پردہ ڈال دیا گیا؛ سہراب الدین انکاؤنٹر کیس میں تمام ملزمین کو بری کردیا گیا۔ اعظم خان، سابق وزیرداخلہ (گجرات) ہرین پانڈیا کے قاتلین کے تعلق سے ایک بیان دیتے ہیں، مگر وہ سب خاموش ہیں۔ رفال کیس میں سپریم کورٹ نے سی اے جی رپورٹ کا تذکرہ کیا جسے پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں پیش نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ دوبارہ کچھ کہتا ہے، نا ہی حکومت کچھ بیان دیتی ہے۔ سی بی آئی اور الیکشن کمیشن نے عام آدمی پارٹی کے بیس لیجسلیٹرز کے خلاف کیس کو دو سال تک ’لٹکایا‘۔
مجرمانہ حرکتوں کی یہ فہرست طویل تر ہوسکتی ہے۔ لیکن امیت شاہ کی شکست پر غلامی کا خوف کیوں ہے؟ شاہ اور مودی ’شہنشاہ‘ ہیں! کیوں انھیں اب (بی جے پی) ورکرز کو خوفزدہ کرنا پڑرہا ہے؟ دیکھئے کہ اگر ہم ہار جائیں تو ہم غلام بن جائیں گے۔ اس کا ورکر پر یہ اثر پڑے گا کہ اسے ناکامی کی صورت میں غلام بن جانے کا خوف ہونا چاہئے؟ کیا لیڈروں نے (دانستہ) ایسا ہی کچھ کیا ہے ……
ravish@ndtv.com