آپ کے پاس دو ہی جگہ ہیں‘ پاکستان او رقبرستان

,

   

حسن نے کہاکہ انہیں بندوق کے کندے سے پیٹا گیا ہے
مظفر نگر۔بلاوجہہ کسی معمر کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ حاجی حامد حسن جس کی عمر 72سال ہے مغربی اترپردیش کے مظفر نگر میں لکڑی کا کاروبار کرتے ہیں‘ انہو ں نے کہاکہ تقریبا30پولیس کے جوان‘ کچھ سادہ لباس میں بھی تھے‘ جمعہ کے روز ان کی دو منزلہ عمارت میں داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ شرو ع کردی۔

YouTube video

حسن نے کہاکہ انہیں بندوق کے کندے سے پیٹا گیا اور جب و ہ مزاحمت کرنے لگے تو انہیں لاٹھیوں سے مارا گیا

گھر میں توڑ پھوڑ کی‘ واش بسن توڑ دیا‘ باتھ روم کا ساز وسامان برباد کردیا‘ پلنگ توڑا‘ فرنیچر‘ فریج‘ واشنگ مشین اور تمام ضروری سامان تباہ کردیا۔آہ وبکا کے دوران پیٹائی کی وجہہ سے ان کے پیر پر لگے چوٹ دیکھاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ”میں نے رحم کی بھیک مانگے مگر وہ بڑے بے رحم ہوگئے تھے۔

وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ مسلمانوں کے پاس دوہی مقام ہیں پاکستان یا قبرستان“۔ ہندوستان میں زیادہ مقامات پر معمر لوگوں نے احتجاج کے دوران نگرانی کی تاکہ اس با ت کا یقینی بنایاجاسکے کے احتجاج پرتشدد شکل اختیارنہ کرلے۔

حسن بھی جمعہ کے روز احتجاج کے دوران وہی کام کیاتھا جو قومی شہریت راجسٹرار اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف تھا۔ انہوں نے کہاکہ دہشت کا سلسلہ تیس سے چالیس منٹ تک تھا۔

حسن نے کہاکہ ”ہر چیز تباہ کرنے کے بعد‘ انہوں نے بندوق کی نوک پر جواہرات او رالماری میں رکھے پانچ لاکھ روپئے لوٹ لئے۔ میری دو پوتریوں کی شادی کے لئے حال ہی میں مذکورہ جویلری میں نے خریدی تھی“۔

حسن نے کہاکہ ان کی بیوی کو ایک کمرے میں دو پوتریوں رقیعہ پروین ایک پوسٹ گریجویٹ سائنس‘ اور مبشرہ پروین گریجویٹ کو بند کردیاگیاتھا۔

انہوں نے کہاکہ گھر میں زبردستی داخل ہونے والے مذکورہ لوگوں نے عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کی‘ حسن کے بیٹے محمد شاہد کو پیٹا اور اس کودور پھینک دیا۔ حسن نے کہاکہ اس کاقصور اتنا ہی تھا کہ جمعہ کی نماز کے بعد احتجاج میں ان کے بیٹے نے احتجاج میں حصہ لیاتھا۔

حسن جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے نے کہاکہ ”چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ بدلہ لے رہے ہیں اور ان کے پولیس والے احتجاجوں میں شامل ہونے والے مسلمانوں کونشانہ بنارہے ہیں۔

جس ملک میں پیدا ہوا ہوں وہ ہندوستان اب باقی نہیں رہا ہے۔ہمارے اجداد نے جناح کے پیغام کو مسترد کردیا اورگاندھی کے ہندوستان کو اپنا مگر اس حکومت نے ہمیں پرایا کردیاہے“۔

اپنی پوتریوں کی شادی کے کارڈس (شادی اگلے فبروری کی 4تاریخ کو مقرر ہے) اٹھاکر بتاتے ہوئے انہوں نے مایوسی کے عالم میں کہاکہ”مودی جی آپ ہمیشہ لوگوں سے کہتے ہیں بیٹی پڑھاؤ‘ بیٹی بچاؤ مگر آپ کے پولیس والے مجرموں جیسا ہمارے گھر پر دھاوے کرتے ہیں‘ ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں زیورات لوٹ لیتے ہیں۔

شادی کا تمام سامان توڑ دیتے ہیں۔ آپ سن رہے ہیں ناں؟“۔واقعہ کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ’’میں اپنے اٹھ سال کے پوترے کے ساتھ سورہا تھا جس وقت دروازے پر زور سے پیٹنے کی آوازیں ائیں۔

جب میں گیٹ کے قریب‘ میں نے دیکھا کہ کئی لوگ دوروازے پر زور سے ماررہے ہیں۔

میں خاموش ہوگیا مگر کچھ دیر بعد انہوں نے ہتھوڑے سے دروازہ کھول دیا“۔انہوں نے کہاکہ پولیس جوان اپنے نام کے بیاچ نکل چکے تھے اور ان میں سے زیادہ تر سادہ لباس میں تھے۔

ان بیٹا شاہد ا ب بھی پولیس تحویل میں ہے اور اس پر فساد برپا کرنے کا الزام ہے۔ حسن نے کہاکہ ”میں نے اس سے ملاقات کی تو اس نے بتایا کہ پولیس والوں نے اس کے ہاتھ میں ایک بندوق پکڑا کر تصویر لی ہے“۔

حسن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے متعلق استفسار پر جواب دینے سے مظفر نگر میں سینئر پولیس افسروں نے انکار کردیا۔مظفر نگر پولیس اسٹیشن پر ایک سب انسپکٹر نے کہاکہ”پولیس سے فساد برپا کرنے والوں کے گھر گئی ہے جنھوں نے تشدد میں حصہ لیاہے“۔

جب اترپردیش ڈائرکٹر جنرل آف پولیس او پی سنگھ سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کے ماتحت نے فون اٹھایا اور کہاکہ ”سر ایک میٹنگ میں مصروف ہیں۔

مہربانی فرماکر جو کچھ کہنا مجھے بتائیں میں ان تک آپ کا پیغام پہنچادوں گا“

۔مبینہ توڑ پھوڑ اور مظالم کے متعلق استفسار پر مذکورہ ماتحت نے کہاکہ”یہ پوری طرح سے جھوٹ ہے۔ کسی بھی گھر میں پولیس نے توڑ پھوڑ نہیں کی ہے۔ ہمارے سینئر عہدیدار حالات کی نگرانی کررہے ہیں۔ پولیس نے فسادیوں کے خلاف کاروائی کی ہے“۔

ایک کیلو میٹر کے فاصلے پر سابق کانگریس رکن پارلیمنٹ سید ازماں سعید کی دوکاریں ان کے فارم ہازو میں جلی ہوئی حالات میں پڑی تھیں۔

ان کے بیٹے سلمان نے پولیس اور مقامی آر ایس ایس کے لوگوں پر تشدد میں شامل ہونے کا الزام عائد کیاہے۔انہوں نے کہاکہ ”جمعہ کی نماز کے بعد پرامن انداز میں احتجاج کیاجارہا تھا۔

آر ایس ایس کے کچھ حامی پولیس کی مدد سے میرے فارم ہاوز میں 6بجے شام کے قریب داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ مچائی“۔

ٹاؤن میں ان کے گھر سے فارم ہاوز محض 800میٹر کی دوری پر ہے۔

انہو ں نے الزام عائد کیا ہے کہ آر ایس ایس کے مقامی حامیوں نے مسلم مظاہرین پر گولیاں برسائیں اور بعد میں ان کے گھر وں پرتوڑ پھوڑ کی اور دوکانوں میں لوٹ مار مچائی ہے۔

سلمان نے کہاکہ ”ان کا اہم مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلا کر لوگوں کو دوبارہ منقسم کرنا ہے“۔ توڑ پھوڑ کا ان کے فارم ہاوز کا گارڈ بھارت رام گواہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”کچھ عام لوگوں کے ساتھ پولیس جوان اندر داخل ہوئے اور اندر کھڑی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ مچائی اور انہیں آگ لگادی اور استبل میں جاکر اندر کھڑے ایک گھوڑ ے کی ٹانگ توڑ دی“۔

حاجی اکبر کے گھر میں توڑ پھوڑم کا کچھ فاصلے پر رہنے والے پڑوسی گواہ ہیں۔

چاروں طرف ٹوٹا سامان بکھرا پڑا ہے۔انہوں نے کہاکہ”کچھ مخبروں کے ساتھ پولیس والے میرے گھر میں داخل ہوئے اور جمعہ کی رات گھر کا سارا سامان تباہ کردیا۔

ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور راڈس تھے اور انہوں نے عورتوں کے ساتھ بھی بدسلوکی کی۔

جب میں شکایت کے لئے پولیس اسٹیشن گیاتو انہوں نے مجھے فسادات کے مقدمات میں ماخوذ کرنے کی دھمکیاں دیں۔ انہوں نے میرے ساتھ بدسلوکی او رمجھے اس وقت دھکا دیاجب میں اعلی عہدیدارو ں سے ملاقات کی درخواست کررہاتھا“۔

YouTube video

انیس سال کی شانو جو سات ماہ کی حاملہ ہے صدمہ میں ہے‘ ہاتھوں میں اپنے 26سالہ نور محمد پیشہ سے ہاکر ہے کی تصویر تھامے ہوئے تھی۔ وہ جمعہ کے تشدد میں گولی لگنے سے فوت ہوگیا ہے۔

ان کی پہلی بیٹی عمیرہ کی عمر دیڑھ سال کی ہے۔نور کے بڑے بھائی عمر نے کہاکہ ”اس کی نعش یہاں پر دفن کرنے کی پولیس اجازت نہیں دے رہی ہے‘ کہہ رہے ہیں اس سے لاء اینڈ آرڈر کامسئلہ پیدا ہوگا۔

پولیس اس کی نعش اسپتال سے میرٹھ کے قریب میں واقعہ ایک قبرستان لے کر گئی اور وہاں پر تدفین انجام دی“۔

انہوں نے کہاکہ پڑوسیوں کے پاس پولیس دھاوے کررہی ہے تاکہ مسلم نوجوانوں کو اٹھاسکے۔

چہارشنبہ کی دوپہر پولیس نے پوسٹر لگاتے ہوئے دیکھا رہی ہے کہ مبینہ احتجاجی جو احتجاج کے دوران پتھر بازی میں ملوث ہیں۔ مذکورہ تصویریں سی سی ٹی وی فوٹیج سے حاصل کی گئی ہیں۔

مذکورہ پوسٹرس مسلمانوں کے پڑوس میں لگائے گئے جس میں لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مذکورہ مشتبہ لوگوں کی شناخت میں پولیس کی مدد کریں۔

ایک سماجی جہدکار ریحان خان نے کہاکہ جمعہ کی دوپہر لوگ پرامن احتجاج کررہے تھے جب کچھ آر ایس ایس حامی ان پر پتھر اؤ کرنے لگے۔

کچھ نوجوانوں نے جوابی کاروائی میں پتھر برسانے شرو ع کردئے جس کے ساتھ ہی پولیس نے آنسو گیس کی شل اور گولیاں برسانی شرو ع کردی‘ تشدد بھڑکا او رچار گاڑیوں کو نذ آتش کردیاگیا۔

خان نے کہاکہ ”یوپی میں ہی تشدد کیوں ہورہا ہے؟کچھ شرپسند اورباہر ی لوگ اس ملوث ہیں جنھیں پولیس کی حمایت حاصل ہے“۔ باہر ٹھنڈ ا پیغام پہنچنے کے لئے انہوں نے کہاکہ مسلمان گھرانوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

خان نے کہاکہ ”چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ احتجاجیوں کے خلاف انتقامی کاروائی کے متعلق بات کہی ہے اور پولیس وہی کام انجام دے رہی ہے۔

منظم انداز میں مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیاہے جنھوں نے نئے قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لیاہے اور یہ بربریت کا مقصد مسلمانوں کو خاموشی میں ڈالنا اور انہیں خوفزدہ کرنا ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کی بات نہ کرسکیں“۔

انہوں نے کہاکہ بجنور‘ کانپور اورمیرٹھ کے حصوں میں پولیس کی جانب سے اسی طرح کی بربریت کرنے کی باتیں سامنے ائی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ”یوپی میں ہرجگہ مسلمان خوف کے ماحول میں رہ رہا ہے۔

مسلمانوں کو خوفزدہ بنانے کے لئے کئے جانے والے حملے ان کے بڑے منصوبوں کا حصہ ہیں۔ اگریہا ں رہنے کی صورت میں مسلمان اپنے حقوق کی مانگ نہ کرسکیں“