ائی ایم اے اسکام۔ منصور نے اچھے اثر کے لئے لیڈروں کے ساتھ کی تصویروں کا استعمال کرتا تھا

,

   

بنگلورو۔ جیسے ہی دن میں کئی کروڑ کا ائی ایم اے سرمایہ کاری اسکام سرخیوں میں آیا اسی کے ساتھ بے شمارشکایتیں اس کے متعلق موصول ہونی لگیں جن کی تعداد 2500کا نشانہ تک پار کرچکی ہیں۔

ائی ایم اے کو تیزی کے ساتھ فروغ دینے کا سیاسی قائدین پر الزام لگ رہا ہے‘ جس میں چھوٹی پیمانے سے لے کربڑی حد تک سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

ایک وقت کی مقبول کمپنی‘ ائی ایم اے پانچ سالوں میں ترقی پائی جب اس کے مفرور ایم ڈی محمد منصور خان نے سوشیل میڈیاپلیٹ فارم پر اہم سیاسی شخصیتوں کے ساتھ اپنی تصویریں پوسٹ کی تھیں۔

مذکورہ تصویریں نے ائی ایم اے میں سرمایہ کاری کے راستے کھول دئے۔

اس کے فوری بعد تیرہ سال پرانی کمپنی میں‘ جو خاص طور پر سونے کی صنعت میں کام کرتی ہے‘ نے اپناکاروبار کو تعلیم‘ انفاسٹچکر ڈیولپمنٹ‘میڈیکل اور ایف ایم سی جی شعبہ میں وسعت دی۔

راست یابالراست سیاسی قائدین نے منصور کے ائیایم اے کے اسٹار مہم کار کے طور پر کام کیاہے‘ جس کے ملک بھر میں 30,000سرمایہ کار ہیں‘

جنھوں نے کمپنی کے بند ہونے تک 2000کروڑ کی سرمایہ کاری کی ہے۔

پچھلے ہفتہ مبینہ طور پر شیواجی نگر کے رکن اسمبلی روشن بیگ کی جانب سے ہراسانی کے بعد خودکشی کی دھمکی پر مشتمل ایک اڈیوریلز کے بعد منصور ملک چھوڑ کر فرار ہوگیاہے۔

مگر تب تک مبینہ طور سے وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے اور یہ کہ دونوں نے کئی فوٹو گرافس ساتھ میں لئے اور سوشیل میڈیاسائیڈس پر بھی پوسٹ کئے۔

اس کے متعلق یہ بھی افوا ہ ہے کہ مسٹر بیگ ائی ایم اے میں پارٹنر تھے مگر حال ہی میں انہو ں نے اس سے انکار کیاہے۔

منصور نے کسی بھی میڈیاپلیٹ فارم پر اپنی سرمایہ کاری کے متعلق اشتہار بازی نہیں کی تھی۔

وہ سونا خریدنے والوں کو بڑے پیمانے پر رعایت کی پیشکش کا لالچ دیاکرتاتھا۔

ایک مرتبہ جب گراہک شوروم پہنچ جاتا تو وہ انہیں اسکیم میں سرمایہ کاری اور ماہانہ منافع کی پیشکش کی لالچ دیاکرتاتھا۔

منصور نے سیاسی لوگوں کے ساتھ تصوئیروں کا استعمال سرمایہ کاروں کے پیسوں کی حفاظت کی تمانعت کے طور پرکیاہے۔

ایک سرمایہ کار نے کہاکہ ”ہم نے ہمیشہ یہی مانا کے ائی ایم اے دیگر کمپنیوں کی طرح دھوکہ دھڑی نہیں کرے گا۔

وہ بہت پرانا تھا‘ منافع مسلسل مل رہاتھا اور کئی سیاسی قائدین بالخصوص مسلمان منصور کے پاس آتے تھے جس کی وجہہ ہمارا کمپنی پر یقین بڑھ گیا“