ائے ارض فلسطین مری جان بھی قربان

,

   

فلسطین … نریندر مودی آخر کس کے ساتھ

زبانی ہمدردی نہیں ، مداخلت کریں

رشیدالدین
’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘۔ فلسطین کے مسئلہ پر ہندوستان کا حال کچھ اسی طرح کا ہے، امریکہ کی سرپرستی میں نہتے فلسطینیوں پر بمباری کرنے والے اسرائیل کو ظلم سے روکنا ہر انسانیت دوست ملک کا فرض ہے لیکن ہیومن رائٹس کے علمبردار ممالک تماشائی کا رول ادا کر رہے ہیں۔ ہندوستان روایتی طور پر فلسطینی کاز کا حامی رہا ہے لیکن نریندر مودی حکومت نے روایات سے انحراف کرلیا۔ فلسطین کو مہاتما گاندھی کی تائید کو نظر انداز کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن نظریاتی گرو اٹل بہاری واجپائی کے موقف سے اختلاف دراصل پرکھوں کی روایت سے انحراف ہوگا۔ نریندر مودی کو ملک کی خارجہ پالیسی میں آر ایس ایس کے حکم پر چلنا ضروری ہے ۔ حماس اور اسرائیل تنازعہ پر نریندر مودی نے سب سے پہلے اسرائیلی ہم منصب سے بات کرتے ہوئے ہندوستان کی تائید کا اعلان کیا اور حماس کو دہشت گرد قرار دیا۔ عرب ممالک اور ہندوستانی مسلمانوں کی ناراضگی کا خیال آتے ہی محمود عباس سے بات چیت کی اور امداد روانہ کرنے کا بھروسہ دلایا۔ مودی حکومت نے فلسطینی عوام کیلئے ضروری سامان کی ایک کھیپ روانہ کی۔ مرکزی حکومت کا یہ اقدام یقیناً قابل ستائش ہے لیکن صورتحال کی سنگینی میں صرف زبانی ہمدردی سے کام نہیں چلے گا۔ ہندوستان کو ظالم اور مظلوم کے درمیان فرق کو محسوس کرتے ہوئے مظلوم کی مدد اور ظالم کا ہاتھ ظلم سے روکنے کی ذمہ داری قبول کرنے ہوگی۔ مودی حکومت کو دیوار کی بلی کے بجائے نہتے فلسطینیوں کی مدد کا باقاعدہ اعلان کرنا چاہئے ۔ اسرائیل سے فوجی ، دفاعی اور تجارتی سطح پر مفادات وابستہ ہیں لیکن فلسطین سے اس طرح کا کوئی مفاد نہیں ، لہذا عرب اور اسلامی دنیا کو مطمئن کرنے کیلئے زبانی ہمدردی کا ڈھونگ کیا جارہا ہے ۔ دو گھوڑوں کی سواری آخر کب تک ؟ فلسطین کے معاملہ میں بی جے پی اور سنگھ پریوار سے ہمدردی کی امید کرنا فضول ہے لیکن جب اقتدار وقت اور حکومت پر فائز رہیں تو ملک کے وسیع تر مفاد کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ مسلم دشمنی کی داخلی پالیسی کو خارجہ پالیسی پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان کا شمار عالمی طاقتوں کی فہرست میں ہونے لگا ہے اور نریندر مودی خود کو ’’وشوا گرو‘‘ یعنی عالمی رہنما کے طور پر شناخت بنانے میں مصروف ہیں۔ یوکرین پر روس کے حملہ پر مودی تڑپ اٹھے تھے لیکن فلسطینیوں کی آبادیوں کو قبرستان میں تبدیل کرنے پر کوئی احتجاج نہیں ہے ۔ ماہرین کے مطابق اسرائیلی حملے اور بمباری نے دوسری جنگ عظیم کے حملوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بستیوں کو دیکھتے ہی دیکھتے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا اور ہزاروں بے گناہ زندہ درگور ہوگئے۔ معصوم بچوں اور خواتین کا آخر کیا قصور تھا؟ اسرائیل نے جنگی جرائم کے تمام حدود کو پھلانگ دیا لیکن اقوام متحدہ کا وجود اور عدم وجود دونوں برابر ہے۔ یوکرین جنگ کے دوران ہندوستانیوں کی بحفاظت منتقلی کیلئے مودی نے جنگ کو کچھ وقفہ کے لئے رکوادیا تھا۔ یہ ہم نہیں کہتے بلکہ بی جے پی کا دعویٰ ہے۔ یہ بات ایسی ہے جیسے یوکرین جنگ میں مودی امپائر کا رول ادا کر رہے تھے اور ان کے اشارہ پر جنگ کو روک دیا گیا ۔ مودی کی اگر واقعی اتنی طاقت اور اتنا اثر ہو تو پھر انہوں نے یوکرین میں مستقل جنگ بندی کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ جب ایک اشارہ پر یوکرین پر روس اپنے حملے روک سکتا ہے تو پھر اسرائیل کو فلسطین پر بمباری سے روکنا نریندر مودی کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ عالمی قائدین میں بنجامن نتن یاہو سے اگر کوئی زیادہ قریب ہے تو وہ نریندر مودی ہیں۔ مودی اپنے دوست کو جنگی جرائم سے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ صرف امدادی اشیاء کی روانگی سے ذمہ داری ختم نہیں ہو تی۔ ہندوستان G-20 ممالک کے گروپ کا سربراہ ہے اور بیک وقت 20 ممالک آواز اٹھائیں تو اسرائیل پر ضرور اثر پڑے گا۔ مودی اور ہندوستانی حکومت کے موقف سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہودیوں پر مسلمان کو ترجیح دینا ممکن نہیں ہے ۔ جس طرح ہندوستان میں مسلمانوں سے زبانی ہمدردی کا رویہ ہے ، ٹھیک اسی طرح فلسطینیوں کیلئے گھڑیالی آنسو بہاکر عرب ممالک کی آنکھ میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ دونوں طرف ہاتھ رکھنے کی پالیسی ہندوستان کے مفاد میں نہیں۔ فلسطین سے ہندوستان کی ہمدردی کی اصلیت اقوام متحدہ میں بے نقاب ہوگئی ۔ جب جنگ بندی کے حق میں قرارداد کے وقت ہندوستان نے غیر حاضر رہتے ہوئے اسرائیلی حملوں کی بالواسطہ تائید کی ۔ قرارداد کی تائید تو کیا ہندوستان کو جنگ بندی کیلئے خود سے قرارداد پیش کرنی چاہئے ۔ امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ غیر حاضر رہتے ہوئے ہندوستان نے ملک کی روایات کو شرمسار کیا ہے ۔ غزہ پناہ گزین کیمپ اور ہاسپٹلس پر بمباری کو مودی حکومت، سنگھ پریوار اور بی جے پی کی عینک سے دیکھنے کے بجائے انسانیت پر مظالم تصور کرے۔ ایک طرف زبانی ہمدردی اور دوسری طرف ظالم کی حوصلہ افزائی، آخر مودی کس کے ساتھ ہیں اور چاہتے کیا ہیں ۔ چونکہ فلسطینی مسلمان ہیں ، لہذا مودی کو یہودی مملکت کے مقابلہ مسلمانوں کی تائید میں تامل ہورہا ہے۔
غزہ کی صورتحال دھماکو ہوچکی ہے کیونکہ اسرائیل نے ایک طرف تباہ کن ہتھیاروں سے حملوں کو تیز کردیا ہے تو دوسری طرف فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے کیمیاوی بموں کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطینی جیالوں کی آنے والی نسل کا صفایا کردیا جائے تاکہ فلسطین کا نام لیوا کوئی باقی نہ رہے۔ زمینی جنگ نے صورتحال کو سنگین بنادیا ہے ۔ بے سر و سامانی کے عالم میں فلسطینی مرد و خواتین اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہیں اور ان کا یقین اسلامی اور عرب ممالک سے زیادہ اللہ کی ذات پر ہے۔ ہندوستان کو فلسطین سے اگر واقعی ہمدردی ہے تو پھر ملک کے مختلف حصوں میں فلسطین کی تائید کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیوں کئے گئے۔ یونیورسٹیز میں اسرائیل کے خلاف مظاہرہ پر طلبہ کے خلاف کارروائیاں کیوں کی جارہی ہیں۔ اتر پردیش ، نئی دہلی اور بعض دیگر ریاستوں میں فلسطین کے حق میں سوشیل میڈیا پر پوسٹ لگانے والوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کا گودی میڈیا حماس اور فلسطینیوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ غزہ اور دیگر علاقوں میں اسرائیل کی بربریت اور تباہی کے باوجود ہندوستان کا گودی میڈیا اسرائیل کو مظلوم کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ گودی میڈیا پر حکومت کا کنٹرول ہے اور کوئی بھی چیانل فلسطینیوں سے ہمدردی کا اظہار نہیں کرسکتا۔ حماس کو دہشت گرد قرار دینے کے مسئلہ پر جمیعۃ العلماء کے صدر ارشد مدنی نے گودی میڈیا کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد تو اسرائیل ہے جس نے فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ اپنے حق کے لئے اور اپنی زمین کی واپسی کیلئے سر سے کفن باندھ کر اسرائیل جیسی طاقت سے مقابلہ کرنے والے دہشت گرد نہیں بلکہ مجاہدین ہیں۔ امریکہ کے پاس موجود مہلک ہتھیاروں کا جو ذخیرہ ہے، اس کا دوسرا مرکز اسرائیل ہے۔ امریکی صدر نے اسرائیل پہنچ کر بنجامن نتن یاہو کو مدد کا یقین دلایا۔ برطانیہ اور دیگر ممالک کے سربراہ بھی اسرائیل پہنچ گئے لیکن انہیں فلسطین کے زخمی بچوں اور خواتین کی آہیں سنائی نہیں دیں۔ اسرائیل نے جن کو برسوں سے غلام بنانے کی کوشش کی ہے، کسمپرسی کے عالم میں وہ ظالم کے خلاف مقابلہ کر رہے ہیں اور انہیں دہشت گرد نہیں کہا جاسکتا۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں انگریزوں نے مجاہدین آزادی کو دہشت گرد قرار دیا تھا ۔فلسطینی جیالوں نے آزادی کے حصول اور غلاموں کی زنجیروں کو توڑنے کیلئے کچھ قربانیاں دینے کا عہد کیا ہے جس کے تحت نہ صرف جوانوں بلکہ ہزاروں بچے اور خواتین نے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ دنیا میں یہودیوں اور عیسائیوں کے زیر اثر ممالک کی نظر میں فلسطینی دہشت گرد ہیں لیکن افسوس کہ عرب اور مسلم دنیا پر سناٹا چھایا ہوا ہے ۔ امریکہ کا خوف کچھ اس قدر ہے کہ اسلامی اور عرب ممالک اسرائیل کو دھمکی دینے کی جرأت بھی نہیں کرسکتے۔ ہندوستانی حکومت پر دباؤ بنانے کیلئے سیکولر اور جمہوری طاقتوں کو متحد ہونا پڑے گا۔ ہندوستان کے فلسطین سے جو روابط رہے ہیں، اس کے نتیجہ میں فلسطینیوں کی نظر ہندوستان کی طرف ہے کہ وہ ان کے حق میں آواز اٹھائے گا۔ ملک کے مختلف شہروں میں مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے علاوہ جہدکاروں اور رضاکارانہ تنظیموں کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی جارہی ہیں۔ اپوزیشن اتحاد انڈیا کو فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے مودی حکومت کو مجبور کرنا چاہئے تاکہ اسرائیل کو آبادیوں ، دواخانوں اور ریلیف کیمپس پر حملوں سے روکا جائے۔ ماجد دیوبندی نے فلسطین کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے ؎
ائے ارض فلسطین مری جان بھی قربان
ہے تیری حفاظت مرا مقصد مرا ایمان