اب راکیش ٹکیت نشانہ پر

   

ملک بھر میں عدم رواداری کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اختلاف رائے کا احترام کرنے اور مخالفین کی بات سننے کی جو ہندوستان کی جو روایت رہی تھیں ان کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ کسی بھی بات سے اختلاف پر حملے کرتے ہوئے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ ذہنوں کی پراگندگی کا نتیجہ ہے اور نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر انڈیلتے ہوئے انہیں ایسی حرکتوں پر اکسایا جا رہا ہے ۔ ملک بھر میں حکومت کے خلاف کسان احتجاج کی قیادت کرنے والے راکیش ٹکیت کو اب نشانہ بنایا گیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حملہ بھی کرناٹک میں کیا گیا ہے جہاں بی جے پی حکومت ہے اور وہاں ہر طرح کے ہندوتوا مسائل پر ہی کام کیا جا رہا ہے ۔ کبھی حجاب کا تنازعہ پیدا کیا جا رہا ہے تو کبھی حلال گوشت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ کبھی لاؤڈ اسپیکرس کی بات ہو رہی ہے تو کبھی تعلیمی نصاب میں ہندو کتابوں کو پڑھانے کا فیصلہ ہو رہا ہے ۔ کبھی مجاہد آزادی ٹیپو سلطان کے خلاف تو کبھی کسی کے خلاف زہر افشانی ہو رہی ہے ۔ کرناٹک ریاست کو جنوبی ہند میں بی جے پی نے ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنالیا ہے اور یہاں سے ماحول کو پراگندہ کرنے کا سلسلہ منظم انداز میں شروع کردیا گیا ہے ۔ کسان لیڈر راکیش سنگھ ٹکیت جب آج بنگلورو میں ایک پریس کانفرنس میں شریک تھے کہ ان پر حملہ کیا گیا ۔ ایک حملہ آور نے انہیں ٹی وی مائیک سے نشانہ بنایا تو دوسرے نے ان پر سیاہی پھینک دی ۔ ایک حملہ آور نے مودی مودی کا نعرہ بھی لگایا ۔ وہاں موجود افراد نے حملہ آوروں کو پکڑلیا اور انہیں پولیس کے حوالے کردیا ۔ پولیس ان سے پوچھ تاچھ کر رہی ہے اور شائد مقدمہ بھی درج کیا جائیگا ۔ یہ سب ضابطہ کی کارروائی ہے ۔ اصل سوال اس ذہنیت کا ہے جو نوجوانوں میں پیدا کردی گئی ہے اور ان کا استحصال کرتے ہوئے سیاسی فائدے حاصل کئے جا رہے ہیں ۔ مسلسل نفرت کا ماحول فروغ دیا جا رہا ہے اور سماج کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے ۔ انہیں متنفر کیا جارہا ہے ۔ سماج میں مختلف متنازعہ مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے اور ان کے ذریعہ نفرت پیدا کی جا رہی ہے ۔ مختلف طبقات کے مابین جو خلیج پیدا ہو رہی ہے اسے بڑھایا جا رہا ہے ۔
ایک روایت یہ بھی بن گئی ہے کہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کوکوئی بھی تیار نہیں ہے ۔ جمہوریت میں اختلاف رائے ہی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اختلاف رائے کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ مخالفین کو مخالف کی نظر سے دیکھا جانا چاہئے دشمن کی نظر سے نہیں۔ ہندوستان کی روایت بھی یہی رہی ہے کہ اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا تھا ۔ تاہم گذشتہ چند برسوں کے دوران اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جا رہا ہے اور مخالف رائے رکھنے والوں کو ہر طرح سے نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ کہیں غداری کے مقدمات درج کئے گئے ہیں تو کہیں مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا ہے ۔ کہیں میڈیا میں الزامات عائد کرتے ہوئے رسواء کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو کہیں کوئی اور طریقہ اختیار کیا گیا ہے ۔ مخالفین کو شخصی دشمن کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ یہ روش انتہائی خطرناک اور ہندوستانی روایات کے مغائر ہے ۔ اسی طرح حکومت کے فیصلوں اور اقدامات سے اختلاف رکھنے والوںکو قوم مخالف قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حکومت خود بھی تنقیدیں برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور جو عناصر انتہاء پسند خیالات رکھتے ہیں وہ بے لگام ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ کسی کو بھی حملوں کا نشانہ بنانے یا ان کا پیٹ پیٹ کر قتل کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ملک میں کئی مقامات پر سر عام نہتے افراد کو زد و کوب کرتے ہوئے قتل کرنے کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ یہ سلسلہ جنونی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے ۔
راکیش ٹکیت نے حکومت کے خلاف کسان احتجاج کی قیادت کی ۔ رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی اور بالآخر حکومت کو تین زرعی قوانین واپس لینے پڑے تھے ۔ احتجاج کے دوران بھی کسانوں کو غدار قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ بیرونی ممالک کے آلہ کار اور غنڈے اور موالی تک قرار دیدیا گیا تھا ۔ تاہم پوری سنجیدگی کے ساتھ احتجاج جاری رہا جس کے بعد حکومت کو قوانین واپس لینے پڑے تھے ۔ اب انہیں اس طرح حملہ کا نشانہ بنانا بیمار ذہنیت اور جنونیت کی علامت ہے ۔ ایسی ذہنیت کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے اور اختلاف رائے کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ اس طرح کے حملے انتہائی قابل مذمت ہیں۔