اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

,

   

۔2021 نئے وائرس کا خطرہ… ویکسین پر سیاست
اورنگ آباد کے نام سے نفرت… الیکشن کیلئے ٹیگور کا حلیہ

رشیدالدین
2020 ء میں ’’جب تک دوائی نہیں ڈھلائی نہیں‘‘ جبکہ 2021 ء میں ’’دوائی بھی کڑائی بھی‘‘۔ یہ دو نعرے وزیراعظم نریندر مودی کے ہیں۔ 2020 ء میں کورونا عروج پر تھا اور دوائی کا کوئی تصور بھی نہیں تھا ، لہذا دوائی نہیں تو ڈھلائی نہیں کی بات کہی گئی۔ اب جبکہ اندرون ملک دو طرح کی ویکسین ایجاد ہوچکی ہے باوجود اس کے مودی نے دوائی کے ساتھ احتیاط کی صلاح دی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کسی مرض کا علاج دستیاب ہوجائے تو پھر کڑے احتیاط کا نعرہ عجیب دکھائی دے رہا ہے ۔ یوں تو نریندر مودی ہر موقع کو ایونٹ بنانے کی مہارت رکھتے ہیں اور الفاظ کی جادوگری کے ذریعہ وہ عوام کو بآسانی گمراہ کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ غم کا موقع ہو یا خوشی کا مودی کو عوام کی تکلیف سے زیادہ اپنی شہرت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ کورونا سے جب لوگ دم توڑ رہے تھے اور سماج میں خوف و دہشت کا ماحول تھا ، مودی نے کبھی لائیٹ بند کر کے تاریکی کی تو کبھی دیا جلاتے ہوئے ساری قوم کو مصروف کردیا۔ کبھی تالی تو کبھی تھالی بجائی گئی۔ ’’گو کورونا گو‘‘ کا نعرہ بھی وائرس پر اثر انداز نہیں ہوا۔ نعرہ بازی اور لفاظی کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے مودی نے ویکسین کے ساتھ کڑائی کی بات کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا ہے کہ وائرس کے خاتمہ کیلئے ویکسین کا کارگر اور اثر انداز ہونا ابھی ثابت نہیں ہوا۔ جو بھی ویکسین عوام کیلئے پیش کی جارہی ہے ، وہ محض ایک تجربہ اور عوام کو تسلی دینے کی ایک کوشش ہے ۔ دنیا بھر میں یوں تو مختلف ناموں سے ویکسین تیار کی گئی اور ٹیکہ اندازی کا تجربہ شروع ہوچکا ہے لیکن دنیا کے کسی سائنسداں اور ریسرچ ادارے نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ویکسین سے کورونا کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ دنیا بھر کے سائنسداں آج تک کورونا کی وجوہات کا پتہ چلانے میں ناکام رہے۔ حتیٰ کہ دوائی کے بارے میں بھی کسی نے صد فیصد اثر کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ یہی مواقع انسان کو خدا کی قدرت کا قائل کردیتے ہیں اور ساری دنیا بے بس ہوجاتی ہے۔ سائنسی ترقی کے دور عروج میں ایک معمولی وائرس میں اہل علم اور غور و فکر کرنے والوں کے لئے کئی نشانیاں موجود ہیں۔ کاش کہ کوئی ہدایت حاصل کرتا۔ 2020 کورونا کا سال ثابت ہوا۔ عوام کی خوشیاں چین و سکون وائرس کی نذر ہوگئے ۔ سال بھر میں 9 ماہ کورونا لاک ڈاؤن ، عوامی مشکلات ، بیروزگاری ، معاشی مسائل اور نفسا نفسی کے عالم میں گزر گئے۔ لوگ اپنے خونی رشتوں اور قرابت داروں کی موت کے غم میں ڈوبے رہے ۔ سال کے اختتام تک ویکسین کی ایجاد نے عوام میں ڈھارس کا کام کیا اور 2020 کے تلخ تجربات کو بھلاکر خوشحالی کی امید کے ساتھ 2021 کا استقبال کیا گیا لیکن دو نئے وائرس نے دنیا پر دستک دیتے ہوئے نئے سال سے وابستہ کی گئی امیدوں پر خطرہ کے بادل پھیلادیئے ہیں۔ لوگ کورونا سے نمٹنے کی ویکسین کی تیاری سے خوش تھے کہ اچانک برطانیہ میں نئے انداز کے وائرس نے تباہی مچادی۔ چین سے کورونا کا آغاز ہوا تھا لیکن اب برطانیہ سے وائرس کی نئی قسم دنیا کو آنکھیں دکھا رہی ہے۔ سائنسداں برطانیہ کے وائرس کو سمجھ بھی نہیں پائے تھے کہ افریقہ میں ایک اور مہلک وائرس کا پتہ چلا جو دونوں سے زیادہ خطرناک بتایا گیا ہے۔ 9 ماہ کی دن رات محنت کے بعد تیار کردہ کورونا ویکسین کے اثرانداز ہونے کی گیارنٹی نہیں ہے تو پھر برطانیہ اور افریقہ کے وائرس سے کس طرح نمٹا جاسکے گا۔ کیا موجودہ ویکسین نئے وائرس پر اثر انداز ہوگی ؟ وائرس کی نئی لہر سے کئی ممالک دوسرے مرحلہ کے لاک ڈاؤن پر مجبور ہوگئے ۔

ہندوستان اور دیگر ممالک کے لئے وائرس کی نئی لہر کا خطرہ برقرار ہے۔ گزشتہ سال فروری میں کورونا کی دستک کے باوجود ملک کے حکمراں خواب غفلت کا شکار رہے ۔ کسی نے کہہ دیا کہ ہندوستان میں کورونا نہیں آسکتا۔ کسی اور نے کہا کہ کورونا وائرس ہندوستان کے درجہ حرارت اور گرمی میں مرجائے گا۔ الغرض ہر کسی نے اپنے اپنے انداز سے خوش فہمی کا اظہار کیا لیکن وائرس نے موت کا ایسا خطرناک کھیل کھیلا کہ کیا غریب کیا امیر ہر کوئی اس کی زد میں آنے سے بچ نہیں سکا۔ طبی ماہرین نے پیش قیاسی کی ہے کہ 2021 نئے وائرس سے نمٹنے اور کورونا کے اثرات کو زائل کرنے کی جدوجہد میں گزر جائے گا ۔ ہندوستان کورونا کی تباہی ، نقصانات اور خوف کے ماحول سے ابھر نہیں پایا کہ برڈ فلو بیماری نے کئی ریاستوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ سارے ملک میں چوکسی اختیار کرلی گئی اور چکن کے استعمال سے لوگ گھبرانے لگے ہیں۔ برڈ فلو پولٹری صنعت کے لئے بری خبر ہے جو کہ لاک ڈاؤن سے ابھی ابھر نہیں پائی تھی ۔ کیا ملک کیلئے 2021 بھی وائرس اور بیماریوں کا سال ثابت ہوگا اور امراض سے مقابلہ میں گزر جائے گا ؟ کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے سائنسدانوں کے لئے پراسرار بنی ہوئی ہے۔ علاج سے زیادہ احتیاط کا مشورہ دیا جارہا ہے ۔ جو تین اہم احتیاطی تدابیر کی نشاندہی کی گئی ،ان میں ماسک کا استعمال ، ہاتھوں کی بار بار صفائی اور دو گز کی دوری شامل ہیں لیکن تینوں طریقے کورونا کے معاملہ میں بے وزن ثابت ہوئے۔ اس لئے کہ تینوں طریقے نظر انداز کرتے ہوئے بھی لوگ صحت مند ہیں۔ جہاں تک تلنگانہ کا سوال ہے کورونا کیسس کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے اور دوسری طرف تینوں احتیاطی تدابیر پر عمل آوری نہیں کے برابر ہے۔ ویکسین کی تیاری اور عوام کے لئے پیش کرنے کے طریقہ کار پر ماہرین نے سوال کھڑے کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عجلت سے کام لیا گیا اور مکمل جانچ (ٹرائیل) کا تیسرا مرحلہ مکمل کئے بغیر مارکٹ میں پیش کردیا گیا ۔ لہذا ری ایکشن کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بعض ممالک میں مضر اثرات اور اموات کی اطلاعات ملی ہیں۔ ویکسین کو لیکر مودی حکومت بلند بانگ دعوے کر رہی ہے اور اسے کارنامہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ ویکسین کے بارے میں عوام میں بھروسہ پیدا کرنے کیلئے سب سے پہلے نریندر مودی ، امیت شاہ کے علاوہ کابینی وزراء اور بی جے پی کے سرکردہ قائدین ویکسین کی خوراک لیں تو بہتر رہے گا ۔ مودی نے کورونا پر بھی سیاست کی تھی اور اب ویکسین پر بھی کر رہے ہیں لیکن ویکسین پر سیاست جوکھم بھری ہوسکتی ہے۔

پارلیمنٹ کا سیشن 29 جنوری کو صدر جمہوریہ کے خطبہ سے شروع ہورہا ہے جبکہ یکم فروری کو بجٹ پیش کیا جائے گا ۔ 2020 کورونا سے معاشی بحران کا سال رہا اور عوام کو نئے بجٹ سے کئی اندیشے ہیں۔ سرکاری خزانہ کے خسارہ کو پر کرنے کیلئے عوام پر نئے ٹیکس کا بوجھ عائد کیا جائے گا یا پھر رعایتوں کا اعلان ہوگا۔ لاک ڈاؤن نے ہر سطح پر چاہے وہ امیر ہو یا غریب معاشی صورتحال کو متزلزل کردیا ہے ۔ لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوگئے ۔ چھوٹی اور متوسط صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔ اشیائے ضروریہ جیسے اناج اور ترکاری کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت لاک لاک ڈاؤن کے نقصانات کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہ صرف رعایتوں بلکہ بیروزگاری الاؤنس کا اعلان کرے۔ ملک میں دوسری طرف کسان احتجاج پر ہیں اور وہ گزشتہ 45 دن سے سردی اور بارش کے باوجود کھلے آسمان کے نیچے ڈٹے ہوئے ہیں۔ مرکزی زرعی قوانین سے دستبرداری ان کا مطالبہ ہے ۔ پارلیمنٹ کے سیشن تک کسانوں کا احتجاج جاری رہے گا یا اس سے قبل حکومت مطالبات تسلیم کرلے گی ، اس پر ملک کی نظریں ہیں ۔ شہر کے ناموں کی تبدیلی کا جنون کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ اترپردیش میں یوگی حکومت نے مسلم ناموں سے موسوم شہروں ، عمارتوں حتیٰ کہ ریلوے اسٹیشنوں کا نام بھی تبدیل کردیا ۔ اب اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کا مہاراشٹرا بی جے پی نے اعلان کیا ہے ۔ مسلم ناموں سے آخر اتنی نفرت ہو تو لال قلعہ پر قومی پرچم لہرانے کے بجائے کسی اور مقام کا تعین کرلیں کیونکہ لال قلعہ مسلمانوںکی یادگار ہے۔ تاج محل اور قطب مینار کا نام بھی تبدیل کردیں۔ بی جے پی کو جان لینا چاہئے کہ دنیا بھر سے سیاح ہندوستان کو تاج محل دیکھنے کیلئے آتے ہیں نہ کہ ایلورا اجنتا ۔ شہروں کے نام بدلنے سے پہلے بی جے پی قائدین شہر بساکر دکھائیں ۔ جو قائدین اپنا گھر نہیں بسا سکے ، وہ شہر کیا بسائیں گے۔ مودی اور یوگی تو گھر بسانے کے نام سے بھی واقف نہیں ہوں گے کیونکہ بسانے کیلئے چاہے وہ گھر ہو کہ شہر دل میں محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسان قائدین نے کہا کہ جس کی گھر والی نہ ہو ، وہ آٹے دال کا بھاؤ کیا جانے ۔ عوام کی زندگی تو 6 سال میں نہیں بدل سکے اور اچھے دن کا خواب پورا نہیں ہوا لیکن بنگال الیکشن کیلئے مودی نے اپنا حلیہ تبدیل کرلیا ۔ ممتا بنرجی سے مقابلہ کیلئے ایک سال سے محنت کرتے ہوئے مودی نے خود کو رابندر ناتھ ٹیگور کا ہم شکل بنالیا تاکہ بنگال کی عوام کو نیا دھوکہ دیا جاسکے ۔ مودی کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے جیسے وہ پرائم منسٹر ہاؤز سے نہیں بلکہ ہمالیہ کی کسی گپھا (غار) سے نکل کر آرہے ہیں۔ حالات اور موقع کی نزاکت سے رنگ بدلنا تو کوئی نریندر مودی سے سیکھیں۔ اچھا ہوا ٹیگور کے بجائے دیدی سے مقابلہ کیلئے دیدی کا حلیہ اور لباس اختیار نہیں کیا۔ نامور شاعر جون ایلیا نے کیا خوب کہا ہے ؎
اب نہیں کوئی بات خطرہ کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے