اب نہیں کوئی بات خطرہ کی

,

   

پارلیمنٹ پر حملہ … مودی حکومت سناٹے میں
کشمیر … عوام کو ادھورا انصاف

رشیدالدین
ہندوستان میں محفوظ پناہ گاہ کی تلاش۔ پارلیمنٹ میں گزشتہ دنوں شرپسندوں کی مداخلت اور ہنگامہ آرائی میں عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال پیدا کردیا ہے کہ آیا ملک میں کوئی محفوظ مقام ہے یا نہیں۔ ملک میں آئے دن ایسے واقعات پیش آرہے ہیں جن کے رونما ہونے سے دنیا بھر میں ہندوستان میں سیکوریٹی اور سلامتی مذاق بن چکی ہے۔ عدلیہ ، جیل ، پولیس اسٹیشن حتیٰ کہ قانون ساز ادارے بھی محفوظ زمرہ میں شمار نہیں کئے جاسکتے۔ پارلیمنٹ پر دہشت گرد حملہ کے 22 سال کی تکمیل پر لوک سبھا اور راجیہ سبھا ارکان نے شہید جوانوں اور اسٹاف کو خراج پیش کیا ۔ 13 ڈسمبر 2001 ء کے خوفناک مناظر ارکان پارلیمنٹ کے ذہنوں میں ابھی تازہ تھے کہ اچانک لوک سبھا کی وزیٹرس گیلری سے دو حملہ آور ایوان میں کود پڑے اور آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے دہشت پھیلادی ۔ جیسے ہی دو نوجوان ایوان میں کود پڑے ہر کسی نے دہشت گرد حملہ کا گمان کرتے ہوئے خود کو بچانے کی فکر کی۔ مداخلت کاروں اور ان کے دو ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا ۔ پولیس نے جملہ 6 افراد کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے اور حملہ کی منصوبہ بندی کرنے والا اصل سرغنہ پولیس کی گرفت سے باہر ہے۔ پارلیمنٹ جسے جمہوریت کا مندر بھی کہا جاتا ہے ، وہاں فلمی انداز میں حملہ آوروں کی حرکت دراصل کسی فلمی شوٹنگ کا منظر پیش کر رہی تھی ۔ پارلیمنٹ جہاں وزیراعظم ، وزیر داخلہ ، وزیر دفاع اور ساری حکومت ہوتی ہے، وہاں سیکوریٹی کوتاہی کا یہ عالم ہے کہ تو پھر عام آدمی کے تحفظ کا کیا ہوگا۔ حملہ آوروں کے پس منظر اور ان کی سازش پر ابھی بھی راز کے پردے پڑے ہیں۔ قومی دارالحکومت اور وہ بھی پارلیمنٹ میں سیکوریٹی نقائص نے دنیا بھر میں ملک کا وقار مجروح کردیا ہے ۔ حملہ آور کون ہے اور ان کے عزائم کیا تھے، اس بارے میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو وضاحت کرنی چاہئے۔ پارلیمنٹ کی قدیم عمارت میں دہشت گرد حملہ کے 22 سال بعد اسی دن نئی پارلیمنٹ پر حملہ محض اتفاق تھا یا سازش ؟ ہندوستان میں سیکوریٹی سسٹم کا دنیا بھر میں مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ باوجود اس کے مرکزی حکومت سناٹے میں ہے اور عوام کو حقائق سے واقف کرانے کے موقف میں نہیں۔ مودی حکومت اس سنگین کوتاہی کو معمولی واقعہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے مسئلہ کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کے پاس آنسو گیس کے شیل کہاں سے آئے۔ پارلیمنٹ کی سخت سیکوریٹی میں وہ آنسو گیس کے شیل لے کر وزیٹرس گیلری کیسے پہنچے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سیکوریٹی کا کوئی اہلکار ان سے ملا ہوا ہو۔ اچھا ہوا کہ معاملہ صرف آنسو گیس پر ختم ہوگیا۔ اگر کوئی ہتھیار ہوتا تو پتہ نہیں ارکان پارلیمنٹ کا کیا حشر ہوتا۔ ہندوستان کی سیکوریٹی کی دھجیاں اڑانے والے حملہ آوروں کے ساتھ حکام کے VIP سلوک سے کئی شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دماغی توازن خراب ہونے کا سرٹیفکٹ دے کر حملہ آوروں کو چھوڑ دیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حملہ آور بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے نام سے جاری کردہ پاسیس کے ذریعہ وزیٹرس گیلری پہنچے تھے۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ سے حملہ آوروں کے کیا روابط ہیں؟ کیا وہ بی جے پی ایم پی کے حامی ہیں، اگر نہیں تو پھر اجنبی افراد کیلئے پاسیس کا انتظام کیوں کیا گیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کیلئے خود بی جے پی نے یہ سازش رچی ہو۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ کی جانچ کیوں نہیں کی جارہی ہے ؟ اگر یہی پاسیس کسی کانگریس ایم پی کے جاری کردہ ہوتے تو آسمان سر پر اٹھالیا جاتا اور رکن پارلیمنٹ پولیس کی حراست میں ہوتے۔گودی میڈیا کی جانب سے مودی حکومت کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے اپوزیشن کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ 2001 ء میں جس وقت دہشت گرد حملہ ہوا تھا ، اس وقت مرکز میں بی جے پی حکومت تھی اور اب کی بار بھی 13 ڈسمبر کو حملہ بی جے پی دور حکومت میں ہوا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر حملہ آور مسلمان ہوتے تو انہیں پاکستان اور کسی دہشت گرد تنظیم سے جوڑ کر گرفتار نہیں بلکہ گولی ماردی جاتی۔ بی جے پی کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا ایک موقع مل جاتا۔ تازہ ترین حملہ کے تمام ملزمین اور ان کے آقا اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکومت اور پولیس انہیں دہشت گرد قرار دینے سے گریز کر رہی ہے ۔ مسلمانوں کی حب الوطنی اور وطن پرستی پر سوال اٹھانے والے اب خاموش کیوں ہیں ؟ مسلمان حملہ کرے تو دہشت گرد اور کوئی دوسرا ہو تو عام ملزم۔ یہ جانبداری آخر کب تک ؟ جرم جب ایک ہے تو سلوک اور سزابھی یکساں ہونی چاہئے ۔
پارلیمنٹ پر حملے کے بارے میں وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی خاموشی اور غیر سنجیدگی سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بن چکی ہے۔ پولیس بھلے ہی اس کارروائی کو حملہ نہ کہے لیکن حقیقت میں یہ 2001 ء کی طرح دہشت گرد حملہ ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ موجودہ دہشت گردوں کے پاس مہلک ہتھیار نہیں تھے۔ حملے کے پس پردہ سازش اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کے بارے میں وضاحت کا مطالبہ کرنے پر اپوزیشن کے 14 ارکان کو دونوں ایوانوں سے معطل کردیا گیا ۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ کارروائی کس کے خلاف ہونی چاہئے اور کس کے خلاف کی جارہی ہے ۔ ارکان پارلیمنٹ نے محض حکومت سے وضاحت کی مانگ کی تھی لیکن برسر اقتدار پارٹی کو مخالف آوازیں پسند نہیں ہے ، لہذا ارکان پارلیمنٹ کو معطل کردیا گیا ۔ مودی حکومت کو سیکوریٹی میں تساہل کے لئے قوم سے معذرت خواہی کرنی چاہئے ۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے کشمیر سے دفعہ 370 کی برخواستگی کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کشمیری عوام کو مایوس کردیا ہے جو گزشتہ چار برسوں سے انصاف کے لئے سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو کشمیر میں الیکشن کرانے اور ریاست کا درجہ بحال کرنے کی ہدایت دی۔ جہاں تک دفعہ 370 کے تحت خصوصی مراعات حاصل تھیں ، اس بارے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ وقتی طور پر مراعات دی گئی تھیں جنہیں مستقل تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیری عوام نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت پاکستان جانے کے مکمل اختیار کے باوجود ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کیا۔ کشمیری عوام کی قربانیوں کے نتیجہ میں اس وقت خصوصی مراعات کا فیصلہ کیا گیا۔ آج تک بھی کشمیری عوام کی حالت میں کوئی سدھار نہیں ہوا ہے کیونکہ ایک طرف دہشت گرد تو دوسری طرف سیکوریٹی فورسس کے درمیان وہ پس رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں میں فوج اور سیکوریٹی فورسس کے مظالم کے کئی واقعات منظر عام پر آئے جن میں فرضی انکاؤنٹرس بھی شامل ہیں۔ پارلیمنٹ میں اگست 2019 ء کو 370 کی برخواستگی کا فیصلہ کرتے ہوئے کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا گیا۔ 370 کی برخواستگی کے بعد سے آج تک کشمیر میں حالات معمول پر نہیں ہیں ۔ سرینگر اور کئی علاقوں میں پابندیاں برقرار ہیں۔ حتیٰ کہ سرینگر کی جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی کی اجازت حکام کی صوابدید پر منحصر ہے۔ عوام کو دستوری حقوق سے محروم رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔ سپریم کورٹ نے کشمیریوں کے ساتھ ادھورا انصاف کیا ہے۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں رام مندر ، دفعہ 370 اور یکساں سیول کوڈ شامل تھے جن میں سے دو ایجنڈہ ایٹمس کی تکمیل ہوچکی ہے۔ 2026 ء تک بی جے پی ملک میں یکساں سیول کوڈ کے ذریعہ ہندو راشٹر کے قیام کا منصوبہ رکھتی ہے۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر میں کامیابی کے بعد جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں نے کاشی اور متھرا کی مساجد اور عیدگاہوں کی بازیابی کی مہم شروع کی ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد 1991 ء میں عبادت گاہوں سے متعلق قانون وضع کیا گیا تھا جس میں ملک کی تمام عبادت گاہوں کا موقف جوں کا توں برقرار رکھنے کا عہد تھا لیکن مودی حکومت نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پہلے کاشی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کو عدالت کے ذریعہ حاصل کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ بابری مسجد کی اراضی سپریم کورٹ کے ذریعہ حاصل کی گئی حالانکہ تمام دستاویزات بابری مسجد کے حق میں تھے۔ گیان واپی مسجد میں مندر کے نشانات کا دعویٰ کرتے ہوئے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے سروے کا آغاز کیا گیا ۔ گیان واپی مسجد کا معاملہ ابھی مسلمانوں میں بے چینی کا باعث ہے کہ اچانک متھرا کی شاہی عیدگاہ کے سروے کی الہ آباد ہائی کورٹ نے ہدایت دیتے ہوئے ہندوتوا ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کا کام کیا ہے۔ بی جے پی کی نظرمیں دراصل 2024 ء کے لوک سبھا انتخابات ہیں اور جنوری میں رام مندر کا افتتاح ہے۔ الیکشن تک عدالت کے ذریعہ گیان واپی مسجد اور شاہی عیدگاہ کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ کے بعد جون ایلیا کا یہ شعر عوام میں گشت کر رہا ہے ؎
اب نہیں کوئی بات خطرہ کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے