اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں 18سال سے کم عمر مسلم لڑکیوں کی شادی پر روک کی مانگ کے ساتھ پی ائی ایل دائر

,

   

یوتھ بار اسوسیشن آف انڈیا نے یہ پی ائی ایل دائر کی ہے۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاست اورمرکزی حکومت سے جواب طلب کیاہے۔
نینی تال۔اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ایک پی ائی ایل پر ریاست اورمرکزی حکومتوں سے جواب طلب کیاگیا ہے جس میں کہاگیاہے کہ مسلم قانون کے تحت 18سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کو غیر قانونی قراردیاجانا چاہئے۔

یوتھ بار اسوسیشن آف انڈیا نے یہ پی ائی ایل دائر کی ہے۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاست اورمرکزی حکومت سے جواب طلب کیاہے۔چیف جسٹس ویپن سانگھی او رجسٹس آر سی کولبی پر مشتمل ایک ڈویثرن بنچ نے جمعہ کے روز سنوائی کے دوران مرکزی حکومت اور اتراکھنڈ حکومت سے اس معاملے میں جواب طلب کیاہے۔

مذکورہ درخواست میں کہاگیاہے کہ مسلم پرسنل لاء میں 18سال سے کم عمر کی لڑکی کی شادی کو اجازت دی گئی ہے۔ اس میں مزیدکہاگیا ہے کہ اس کی وجہہ سے عدالتیں اس بات کی مجاز ہیں ہیں کم عمر لڑکیوں کو تحفظ فراہم کریں جس کی عمر 18سال کی نہیں ہوئی ہے۔

پی ائی ایل میں کہاگحیاہے کہ اس کی وجہہ سے کم عمر لڑکیوں کو صحت کے معاملات در پیش ہیں جو جنسی تعلقات قائم کرتی ہیں اور کم عمری میں حاملہ ہوتی ہیں۔ اس میں کہاگیاہے کہ جنسی جرالم سے بچوں کا تحفظ ایکٹ(پی او سی ایس او) کے تحت 18سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی ایک جرم قراردیاگیاہے۔

اس میں مانگ کی گئی ہے کہ نہ صرف ایسی شادیوں کو غیر قانونی قراردیاجائے بلکہ 18سال سے کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات بنانے والوں پر بھی پی او سی ایس او ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیاجانا چاہئے۔

اس پی ائی ایل میں مشورہ دیاگیا ہے کہ شادی کی عمر کو 18سے بڑھا کر 21سال کیاجائے اور جب تک ایک قانون بنائے جانے کے ایسی کوئی بھی شادی جو18سال سے کم عمر لڑکی کی ہوتی ہے وہ بلاتفریق مذہب ذات پات اور مذہبی شمولیت کے غیر قانونی قراردی جائے۔