احتجاج در احتجاج (راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے!)

   

رفیعہ نوشین
15جنوری کی صبح رخشندہ ہاتھوں میں اخبار لئے مایوسی کا پیکر بنی بیٹھی تھی ۔ اخبارملک میں پھیلی بدامن فضاء اور انتشار کی دردناک خبروں سے بھرا پڑا تھا۔مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے والے قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا بازار گرم تھا – اس سیاہ قانون پر روک لگانے کا مطالبہ ہو رہا تھا جس سے ملک کی سالمیت کو خطرہ تھا ۔ جو فرقہ پرستی کو ہوا دے رہا تھا – تلنگانہ خاص کر حیدرآباد کی عوام کو بھی جھنجوڑا جانے لگا کہ
’’مرد حضرات اور خواتین ملک کے تئیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے فاشزم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب شہریت کے ثبوت کی عدم فراہمی کے پاداش میں ہمیں اپنے ہی وطن سے دربدر کر دیا جائے‘‘۔ رخشندہ یہ پڑھ کر تڑپ اٹھی ۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ بھی قانون کی اس لڑائی میں ضرور شامل ہوگی – شیلف سے چارٹ پیپر اور مارکر نکالا اور ایک خوبصورت قطعہ لکھا:
یہ دیکھ سرخ ہے بیٹی کی آنکھ کا کاجل
لے آج پرچم دیں بن گیا ہے یہ آنچل
یہ فاطمہ کی دیوانی ہے یہ بھی یاد رہے
یہ آج جھانسی کی رانی ہے یہ بھی دھیان رہے
صبح گیارہ بجے وہ اپنے ہاتھوں سے لکھے خوبصورت پلے کارڈ کے ساتھ رضیہ سلطانہ کے مجسمہ کے پاس کھڑی تھی جہاں احتجاج کے لیے لوگ اکھٹا ہورہے تھے۔ اس وقت وہاں اس کے علاوہ کوئی دوسری خاتون موجود نہ تھی- خواتین کو کسی بات یا کام کے لئے قائل کرنا بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے- لیکن یہ بھی سچ ہے ایک مرتبہ وہ اگر قائل ہو جائیں تو پھر انہیں اس کام سے روکنا مشکل ہو جاتا ہے خیر احتجاج شروع ہوا سب لوگ اپنے اپنے پلے کارڈز اور بینرز تھامے کھڑے ہو گئے ۔ اسی دوران ایک تلگو بولنے والا شخص رخشندہ کے پاس چلا آیا اور اس کے بنائے ہوئے پلے کارڈ کو تعریفی نظروں سے دیکھتا ہوا گویا ہوا۔’’سنیں…اس پلے کارڈ پر آپ نے کیا لکھا‘‘؟
شایداسے اردو زبان بہت پسند تھی۔ویسے بھی اردو زبان میں کچھ ایسی شرینی ہوتی ہے جس سے ہر کوئی متاثر ہوئے بنا رہ نہیں سکتا۔۔ چونکہ وہ اردو سے نابلد تھا اس نے رخشندہ سے گزارش کی کہ پلے کارڈ پر لکھی عبارت پڑھ کر سمجھاؤ – یہی وہ پل تھا جب میڈیا نے ان دونوں کی تصویر اپنے کیمرے میں قید کرلی اور دوسرے دن مقامی اخباروں کی زینت بنادی گئی ۔ پھر کیا تھا۔صبح صبح رخشندہ کے بھائی جابر حسین اخبار اس کے سامنے غصے سے پھینکتے ہوئے چلائے،’’کیا ہے یہ سب‘‘؟
رخشندہ نے دیکھا اخبار میں احتجاج کی رنگین تصویر شائع ہوئی ہے – اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہراگئی۔وہ بھائی کے غصے سے یکسر بے خبر بے پناہ خوشی سے گویا ہوئی ۔ ’’بھائی جان! کتنی اچھی تصویر ہے ناں؟ دورِ قدیم کی رضیہ سلطانہ کے قدموں میں دور جدید کی رضیہ سلطانہ!‘‘ ’’واہ! کیا بات ہے!‘‘اس کی نظریں اخبار پر ہی ٹکی تھیں ۔ ’’خاموش! تم خوش ہو رہی ہو اور میں شرمندہ… پتا ہے میرے دوست کہہ رہے تھے‘‘یہ دیکھو جابرحسین کی بہن فٹ پاتھ پر مردوں کے درمیان کھڑی ہے پلے کارڈ تھام کر‘‘۔ جابر حسین کے لہجے میں شرمندگی کا عنصر نمایاں تھا ۔’’ہاں تو بھائی جان آپ ان معصوم بندوں کو بتا دیتے کہ احتجاج بیڈ روم میں نہیں سڑکوں پر ہی ہوتا ہے ‘‘۔ رخشندہ کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی -وہ بھائی سے بے تکلف تھی۔اتنے سارے مردوں میں تم تنہا عورت…! اس قسم کی تصاویر دیکھ کر لوگ پتا نہیں کیا سوچتے ہوں گے؟ بھائی کے لہجے میں خفت تھی۔یہی کہ ایک حوصلہ مند خاتون نے احتجاج کا چراغ جلا دیا ہے جس کی لو سے کئی اور چراغ جل اٹھیں گے!!
رخشندہ بدستور مسکرا رہی تھی ۔اونہہ! تم اور تمہاری شاعری…یہ منطق اپنے مداحوں کو سنانا…مجھے یہ سب ایک آنکھ نہیں بھاتا‘‘۔ وہ پیر پٹکتے ہوئے کمرے سے باہر چلے گئے۔ اتنا غصہ…؟ وہ بڑبڑائی۔ پھراس نے خفیف انداز میں سر کوجھٹکا اور خود کلامی میں کہہ اٹھی۔
مشرق کی پہلی فیمینسٹ رضیہ سلطانہ جی آپ نے تو 1203 میں تلوار بازی اور گھڑ سواری سیکھی تھی – بچپن میں ٹیچر نے آپ کی تصویر کے ساتھ آپ کی بہادری کے قصے سنا سنا کر ہمیں بہادر اور جنگجو بننے کی تلقین کرتیں تھیں ۔ گھوڑا میدان اور تلوار تو بہت دور کی بات ہے آج ہم، ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھام کر سڑک پر کیا اترے کہ گھر میں بوال مچ گیا۔ہوسکتا ہے شام تک خاندان اور معاشرہ بھی خلاف ہوجائے لیکن رضیہ سلطانہ آپ اطمینان رکھیں! ہم آپ کے بہت بڑے پرستار ہیں – جس طرح آپ نے اپنے بھائی کو شکست دے کر تخت حاصل کیا تھا ہمیں بھی اسی طرح اپنے ملک کے دستور کو بچانے کے لئے اپنے بھائیوں کو شکست دینی ہی ہے‘‘۔ اس کے ارادوں میں پختگی جھلک رہی تھی ۔
بھائی جان جس وقت میں نے احتجاج شروع کیا تھا اس وقت آپ کو اعتراض تھا کہ میرے علاوہ کوئی دوسری خاتون موجود نہیں ہے ۔ اور آج جب بہت ساری خواتین اس احتجاج میں شامل ہیں تب بھی آپ کو اعتراض ہے – ایسا کیوں؟ رخشندہ جاننا چاہتی تھی ۔اس لئے کہ اب جب کہ احتجاج کی آگ بھڑک چکی ہے تو چنگاری کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ انہوں نے معنی خیز انداز میں جواب دیا اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے۔یہ بتاؤ کہ تم اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر کیوں پوسٹ کرتی ہو جس میں مرد حضرات بھی شامل ہیں؟
چاہتی کیا ہو تم؟ تشہیر؟ اس سے تو تمہارا مقصد فوت ہو جائے گا نا؟ جی نہیں! یہ آپ کی غلط فہمی ہے ۔ فیس بک، میں ای ڈائری کی طرح استعمال کرتی ہوں ۔ جس میں ہر پروگرام کا مقصد اور تفصیلات درج ہوتی ہیں اور تصاویر بھی کیونکہ ایک تصویر ہزار الفاظ کی غماز ہوتی ہے۔ خواتین کے بیشتر پروگرامزمیں مرد حضرات کی شرکت منع ہوتی ہے تو انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ خواتین کتنی اہم موضوعات پر کام اور محنت کر رہی ہیں اور کہاں کہاں شرکت کرتی ہیں؟ ان کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ مختلف موضوعات کے بارے میں ان کا نقطہ نظر کیا ہے۔؟ رخشندہ نے خلاصہ کیا لیکن انہیں یہ معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا ان سب کے لئے تم جوابدہ ہو؟ جابر حسین نے جرح کی ۔
معلومات فراہم کرنا ضروری ہے بھائی جان بہت ضروری ۔ آپ نہیں جانتے کہ معلومات کے فقدان اور مواد کی عدم فراہمی کی وجہ خواتین کی سرگرمیاں چاہے وہ چھوٹے پیمانے پر ہوں یا بڑے پیمانے پر وہ مقام حاصل نہیں کر پاتیں جس کی کے وہ حقدار ہیں اور یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعہ فراہم کردہ معلومات برسوں تاریخی وتصویری حوالہ جات کے ساتھ موجود رہتے ہیں اور حسب ضرورت استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ میرے فیس بک پیج سے کئی اخباری نمائندے اپنے اخبار کے لئے تصاویر اور مواد لیتے ہیں جو انہیں بہ آسانی فراہم ہو جاتا ہے- بصور ت دیگر ان کے لئے یہ ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا۔ رخشندہ نے حالات پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئی وضاحت کی ۔کیا تم نے سب کو معلومات فراہم کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ جابرحسین نے پھر ایک سوال داغا ۔
ٹھیکہ تو نہیں بھائی جان ہاں ممکنہ حد تک کوشش ضرور کرتی ہوں۔ ویسے اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب ہماری ہی تنظیم کی ایک ساتھی نے میڈیا کے انٹرویو میں خواتین کی کسی تنظیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’خواتین کی ایک تنظیم ہے جو کسی کونے میں کچھ خواتین کے ساتھ کچھ کام کر لیتی ہے‘‘۔ شاید وہ اس بات سے واقف نہیں تھیں کہ کونے کونے میں بسی یہ خواتین کی تنظیمیں اپنیڈرائینگ رومز میں ہی اجلاس منعقد کرکے دین ودنیا کی، ادب کی،سماج کی کتنی گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں – آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میری یہ ادنی سی کوششیں رائیگاں نہیں جارہی ہیں۔
کل ہی کی بات ہے۔ ایک کالج کے پروگرام میں دورانِ لکچر معروف ایڈیٹر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں میرے فیس بک پیج سے کئی معلومات فراہم ہوتی ہیں…جو کہ نئی اور دلچسپ ہوتیں ہیں۔ بھائی جان! کیا اخبار کے مدیر کا یہ بیان میرے فیس بک پیج کی اہمیت کا دلیل نہیں؟ رخشندہ نے زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’تم سے تو بات ہی کرنا بے کار ہے‘‘۔ وہ جھلا کر باہر نکلنا ہی چاہتے تھے کہ رخشندہ نے روک لیا ۔
بھائی جان! ہمارے خاندان کا ہر فرد سوشل میڈیا کے تمام ذرائع،جیسے واٹس اپ، فیس بک،ٹویٹر،انسٹاگرام وغیرہ استعمال کرتا ہے جس پر گھروں کی بہت معمولی اور بہت ہی خاص نجی باتیں پوسٹ کی جاتی ہیں۔ جیسے کھانوں کی تصاویر… پیڑ پودوں، پھولوں، فرنیچر اورگھروں کی سجاوٹ، جلتے قمقمے، بجھتے چراغوں کی تصاویر، ہوٹلنگ، شادی بیاہ کے تمام رسم و رواج کی تصاویر اور حد تو تب ہوتی ہے جب دلہن کی تصاویر دلہے کی منہ دکھائی سے پہلے ہی وائرل ہو جاتی ہیں ۔میاں بیوی کی رومانٹک تصاویر جہاں بیوی میاں کے گلے میں بانہیں ڈالے سب کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ’’ہمارا پیام، محبت سر عام‘‘۔ تعجب ہے اس پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں؟ اور میں فیس بک ایک تعمیری مقصد کے لئے استعمال کرتی ہوں تو اعتراض ہے ۔آپ کی اس بات پر تو کیفی کا یہ کلام یاد آتا ہے کہ:
یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے
یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے؟
جابر حسین نے تیزی سے اپنا ہاتھ بہن کی گرفت سے چھڑایا اور گردن جھکا کر باہر نکل گئے۔زندگی ہر قدم ایک نئی جنگ ہے۔رخشندہ گنگناتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔
مخالف سرکار کا کام زوروں سے جاری تھا ۔ ہر روز ایک نیا چیلنج ۔ اب تو مظاہرین کے گرفتاریوں کا سلسلہ بھی چل پڑا تھا ۔ حکومت احتجاج کے جمہوری حق پر بھی پہرے لگا رہی تھی ۔ نتیجہ عوام بغاوت پر اتر آئی تھی۔ یہی ہوتا ہے جب حق تلفی ہوتی ہے ۔ جب ظلم و زیادتی ہوتی ہے ۔ جب ڈکٹیٹرشپ حاوی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی ایک مظاہرہ میں احتجاج سے پہلے ہی پولیس نے رخشندہ اور اس کیساتھیوں کو حراست میں لے لیا اور پولیس تھانہ لے گئی ۔ یہ بات افراد خاندان کو معلوم ہوئی تو گھر میں جیسے زلزلہ آگیا ۔ انہیں لگا کہ پولیس اسٹیشن میں قدم رکھ کر رخشندہ نے گویا خاندان کی عزت کے ساتھ زبردست کھلواڑ کیا ہے ۔ پڑگیا چین تمہیں تھانے پہنچ کر جابرحسین کی آنکھوں سے غصے کی چنگاریاں نکل رہی تھیں۔
آخرملا دی نا خاندان کی عزت مٹی میں -؟ خاندان کے کسی فرد نے آج تک پولیس تھانے کا رخ بھی نہیں کیا تھا- لوگ ہمارے خاندان کی شرافت کی مثال دیتے تھے۔ تمہیں اپنی بہن کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے مجھے، ان کا لہجہ حقارت آمیز تھا ۔رخشندہ کسی سے وعدہ کر رہی تھی ۔اب کس نے فون کیا…؟ رات کی تاریکی میں کہاں جانے کی بات کر رہی تھیں تم؟ ماں نے ماتھا پیٹا۔ ماں! بے فکر رہیں…مجھ پربھروسہ رکھیں۔شریف گھرانے کی خواتین رات کی تاریکی میں گھر سے نکلتی ہیں بھلا؟
مسجد اُجالے شاہ ؒمیں تہجد کی نماز، اجتماعی دعا اور دہلی کے شاہین باغ کی طرز پر احتجاج کا آغاز ہونے جا رہا ہے ۔ وہیں جارہی ہوں رخشندہ نے بھیگی آواز میں جواب دیا ۔راتوں کو سڑکوں پر بیٹھنا اور خوب زور زور سے نعرے لگانا ہڑبونگ مچانا اب یہی ایک کام رہ گیا ہے حیدرآبادی خواتین اور لڑکیوں کا خود تو پردہ کرتی ہیں لیکن آواز کے پردہ کا تھوڑا بھی احساس نہیں اور جنہوں نے ابھی فون کیا اورآنے کو کہا ہے انہیں یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ تنہا خواتین بغیر محرم کے رات کو کیسے نکل پائیں گی۔ ماں جزبز ہوکر بولیں۔
ماں اسلام ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کا حق ہر بندے کو دیتا ہے چاہے وہ مردہو یا عورت اگر ضرورت ہو تو خواتین رات کے وقت بھی تنہا نکل سکتی ہیں بغیر محرم کے کیونکہ محرم ہونے کی شرط تو اس وقت ہے جب وہ اتنی مسافت کا سفر کرے جس میں قصر نماز کی اجازت دی گئی ہے۔ رہا سوال آواز کے پردے کا تو قران مجید میں عورتوں کو اپنی آواز میں لوچ پیدا کرنے سے منع کیا ہے لیکن ہم خواتین جب نعرے لگاتی ہیں تو ہماری آواز میں لوچ نہیں قہر ہوتا ہے جو ظالموں کے کانوں میں سیسہ بن کر اترتا ہے جس میں دلوں کو چیرنے کی طاقت ہوتی ہے سمجھیں آپ؟ رخشندہ نے وضاحت کی ۔’’واہ کیا بات ہے تم تو آج کل فتوے بھی دینے لگی ہو‘‘ ۔ جابر حسین نے طنز کیا ۔
بھائی جان یہ بات میں نہیں کہہ رہی ہوں بلکہ ندوۃالعلماء سے فارغ التحصیل معروف عالم دین مولانا رضی الاسلام ندوی نے مدلل کہی ہے۔ رخشندہ کے پاس ہر اعتراض کی دلیل موجود تھی۔یہی وجہ تھی کہ اس کی باتوں میں وزن اور اس کی شخصیت میں اعتماد کا پرتو جھلکتا تھا ۔
اس کا مطلب اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی تم اپنا احتجاج جاری رکھوگی؟ جابر حسین نے پوچھا ۔ ”جی ہاں… احتجاج اور گرفتاری تو لازم و ملزوم ہیں – اس کے بغیر احتجاج کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا – اگر آپ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ غلط ہے یا اس سے آپ کی عزت خطرے میں پڑ رہی ہے تو مجھے آخ کر دیں – اخبار میں وکیل کے ذریعہ نوٹس شائع کروا دیں کہ نہ میں آپ کی بیٹی ہوں نہ بہن” – رخشندہ نے نمناک آنکھوں سے اپنا سامان ایک بیگ میں ٹھونسا ہاتھوں میں پلے کارڈز تھامے انقلاب زندہ آباد! کے نعرے لگاتی ہوئی نکل پڑی اس انقلاب کے لئے جو اسے ملک سے پہلے اپنے سماج میں لانا ہے ۔
وہ انقلاب جس سے مردوں کی سوچ کو بدلنا ہے
وہ انقلاب جو خواتین کے تشخص کو برقرار رکھے
انہیں وہ عزت وقار اور مقام دے جس کے لئے نہ جانے انہیں کب تک لڑنا ہوگا -دور کہیں ریڈیو پر کیفی کے مشاعرہ کا ریکارڈ بج رہا تھا:
توڑ کر رسم کے بت بندِ قدامت سے نکل
ضعفِ عشرت سے نکل وہمِ نزاکت سے نکل
نفس کے کھینچے ہوئے حلقہء عظمت سے نکل
قید بن جائے محبت، تو محبت سے نکل
راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے!