استنبول کے تقسیم چوراہے پر پہلی مسجد کا اردغان کے ہاتھوں افتتاح

,

   

صدر اردغان نے کہاکہ ”تقسیم مسجد استنبول کی پہچان میں اہم مقام بن گئی ہے“مسجد کی تعمیر میں طویل جدوجہد کرنے والے ہر فرد سے انہوں نے اظہار تشکر کیا


انقارہ۔ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے جمعہ کے روز استنبول میں مشہور تقسیم چوراہے پر کئی سالوں کی قانونی لڑائی اور عمارت پر عوامی تنازعات کے بعد جمہوری ترکی میں ایک مذہبی نشانی کے طورپر پہلی مسجد کا افتتاح عمل میں لایا۔

صدر اردغان نے کہاکہ ”تقسیم مسجد استنبول کی پہچان میں اہم مقام بن گئی ہے“مسجد کی تعمیر میں طویل جدوجہد کرنے والے ہر فرد سے انہوں نے اظہار تشکر کیا


۔”اللہ چاہتے ہیں کہ یہ وقت آخر تک قائم رہے گی“
الجزیرہ کی رپورٹ ہے کہ اسی مقام پر جمعہ کی نمازادا کرنے کے بعد کہاکہ”ترکی کے سب سے بڑی شہر کے قلب میں عبادت کے لئے ایک مسجد کی تعمیر کا اپنا (30سالہ خواب) دہائیوں کا ہدف پورا کررہاہوں“۔

اس شاہی مسجد کے اوپر ایک 30میٹر(98فٹ) کی گنبد تعمیر کی گئی ہے اور اس کو عصری دور کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کے دور کوملاکر تعمیرکیاگیاہے۔

اس میں بیک وقت 4000لوگ نمازادا کرسکتے ہیں اور شہر کے کسی بھی کونے سے یہ مسجد دیکھائی دیتی ہے

بہت سارے لوگ جوش وخروش کے ساتھ اس اس افتتاحی تقریب میں شامل ہوئے اور کئی ہزار لوگوں نے نماز ادا کی مسجد کا باہری صحن تیزی کے ساتھ بھر گیا‘ چوراہے پر نصب ایل ای ڈی اسکرینوں پر افتتاحی تقریب اور اس مسجد میں ادا کی جانے والی پہلی نماز کی راست نشریات عمل میں ائی تھی۔

جمعہ کے روز ٹوئٹر پر حکام کی جانب سے ایک ویڈیو پوسٹ کیاگیا جس میں دیکھا یاگیا کہ1994میں اردغان‘ جس سال میں وہ استنبول کے میئر منتخب ہوئے تھے‘ ایک عمارت کی اونچی سے مذکورہ علاقے کی طرف اشارہ کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں وہ یہاں پر ایک مسجد تعمیرکرائیں گے‘ ٹھیک اسی مقام پر وہ اب کھڑے ہیں۔

جمعہ کی افتتاحی تقریب میں اردغان نے کہاکہ ”یہاں پر نماز کے لئے جگہ تک نہیں تھی اور مومنین کو یہاں زمین پر اخبار بچھا کر نمازادا کرنا پڑتا تھا“۔

تقسیم پراجکٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ شہر کے مصروف ترین سنٹرس کے قریب میں مسلمانوں کو عبادت کے لئے کوئی مناسب جگہ نہیں تھی۔

حالانکہ ترکی ایک مسلم اکثریت والا ملک ہے مذکورہ مسجد کی تعمیر 2017میں شروع ہونے کے ساتھ اس پر تنقید کی جانے لگی تھیں‘ بعض مخالفین نے اردغان پر الزام لگایاکہ وہ مذکورہ ملک کو ”اسلامیت“پر لے جانا چاہتے ہیں اور سکیولر ماڈرن جمہوریت کے بانی مصطفےٰ کمال اتاترک کو ہٹانا چاہتے ہیں۔

ابتداء میں مسجد کا افتتاح ماہ رمضان میں مقرر کیاگیاتھا۔مگراردغان نے استقریب کے وقت پر کوئی خاص توجہہ نہیں دی‘ آخر کار انہوں نے مخالف حکومت احتجاج کی2013میں شروعات کی یاد کے دن کو مسجد کے افتتاح کے لئے منتخب کیاہے۔

مذکورہ چوراہا اس احتجاج کا مرکز تھا جس کو ”غازی تحریک“ کہاجاتا ہے اور اس کو پولیس نے سختی کے ساتھ ناکام کردیاہے۔

قسطنطنیہ پر1453میں عثمانیہ قبضہ کے سالانہ یاد میں منائے جانے والے یوم سے ایک دن قبل کو بھی اس کے افتتاح کے لئے مقرر کیاگیاتھااور یہ صدر کے لئے ایک خصوصی دن ہوتا ہے جس کو ماضی کی یادگاروں کو محسوس کرتے ہیں۔

افتتاح کے دوران اردغان نے کہاکہ وہ تقسیم مسجد کو بطور ”استنبول کی فتح کی 568ویں یاد کے موقع پر جشن کا تحفہ“ دیکھ رہاہوں۔