اسد اویسی کی زبان کی تیز دھار سے مخالفین کو تقویت

   

صدر مجلس پر بی جے پی کو سہارا دینے والے آلۂ کار کا شبہ

نئی دہلی 24 جون (کوئنٹ نیوز) 17 ویں لوک سبھا کی شروعات بہت ہی آزمائشی ہوئی۔ نومنتخب ارکان پارلیمان کی حلف برداری کے دوران نعرہ بازی اور قابل گریز رکیک حملوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ طلاق ثلاثہ کے بل پر جو مباحث ہوئے اس نے کئی معروف نقائص کو نمایاں کردیا اور ملک کی کئی سیاسی جماعتوں نے حکومت کی جانب سے اس بل کی تیاری کو امتیاز پر مبنی عمل قرار دیا۔ ایک آدمی جو ہر موقع پر پارلیمنٹ میں لوگوں کی توجہ پر چھایا رہا وہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور حیدرآباد پارلیمانی حلقہ کے رکن اسدالدین اویسی رہے۔ پارلیمنٹ میں سرکاری گوشوں نے ان کے لئے بہت ہی نوکیلے جملے محفوظ رکھے تھے اور انھوں نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر جو کچھ بھی کہا وہ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد کے لئے کافی پریشان کن رہا۔ اس لئے انھوں نے کانگریس کے موقف کی تعبیر میں کہا تھا کہ کانگریس کا موقف ’’اویسی جیسے لوگوں کی تائید ہے‘‘۔ انھوں نے کہاکہ کانگریس جو طلاق ثلاثہ بل کی مخالفت کررہی ہے وہ ’’انتہائی قابل افسوس‘‘ ہے۔ اویسی مسلسل چوتھی بار پارلیمنٹ کے رکن بنے ہیں لیکن 543 ارکان پر مبنی ایوان میں پہلی بار مجلس کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد ایک سے بڑھ کر دو ہوگئی اور کانگریس کہا جاتا ہے کہ اب اویسی کے راستے پر چل پڑی ہے۔ حالانکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا یہ جماعت حکمرانی کے لئے ایک فطری انتخاب تصور کی جاتی تھی اور اب بھی ایک ایسی طاقت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اویسی نہیں ہوتے تو ہندوتوا کے پراجکٹ کو ایک اویسی کو گڑھنے کی ضرورت پڑجاتی۔ مجلس ایک بہت ہی چھوٹی پارٹی ہوسکتی ہے جو بی جے پی کے انتخابی امکانات پر فوری کوئی بامعنی اثر ڈال سکے لیکن سیاست میں مبینہ پھوٹ ڈالنے والی طاقت کے طور پر صرف بی جے پی کو جانفشانی سے اپنے ووٹ سمیٹنے کے قابل بناسکے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ اویسی غیر مبہم اور غیر متاسفانہ عمومی انداز کے باوجود جو وہ بی جے پی کے خلاف اختیار کرتے ہیں وہ غیر شعوری طور پر شاید بی جے پی کی مقصد براری کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں بلاشک اس شبہ کو ہوا دیتی ہیں کہ اویسی بی جے پی کو اُبھارنے اور سہارا دینے والا آلہ ہیں۔ یہ بات سچ ہے یا غلط یہ بھی بحث طلب مسئلہ ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اویسی کی پارٹی کے انتخابی میدان میں اُترنے سے حزب مخالف کے انتخابی امکانات کو نقصان پہنچتا ہے، یہ بات غلط نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’کثیر جماعتی نظام‘‘ میں اویسی اور ان کی جماعت اس بات کی حقدار ہے کہ کسی سیاسی طاقت کا جوا اپنے کندھوں پر اُٹھائے بغیر اپنے سیاسی کیرئیر کو بنانے کی کوشش کرے۔ تاہم اگر انھیں آگے اپنی توسیع کرنی ہے تو اویسی کو اس ’’چکرویو‘‘ سے نکلنا ہوگا جو ان کے سیاسی مخالفین اور حریفوں کو کمزور کرنے کے بجائے ان کی زبان کی تیز دھار سے تقویت پہنچاتا ہے۔