اسلام لوگوں کے بھید ٹٹولنے سے منع کرتا ہے

   

(۱) عدم تجسس: اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کے عیوب ڈھونڈے جائیں، وہ کس طرح پسند کرسکتا ہے کہ لوگوں کے گناہ ڈھونڈے جائیں۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ ’’لوگوں کے بھید نہ ٹٹولو‘‘ (سورۃ الحجرات ۱۲) سزاؤں کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر کوئی جرم سامنے آجاتا ہے اور یقینی ثبوت فراہم ہو جاتا ہے تو سزا دی جائے۔ سزا دینے کے لئے گناہ ڈھونڈکر نہ نکالے جائیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’حدود کو آپس ہی میں معاف کردیا کرو، مگر جس حد کا معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا تو پھر وہ واجب ہو جائے گی‘‘۔ (ابوداؤد)
حضرت ماعزا سلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے جب زنا کا ارتکاب ہو گیا تو حضرت ہزال بن نعیم رضی اللہ تعالی عنہ نے اُن سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادو، تاکہ آپﷺ تمہارے لئے مغفرت کی دعا فرمادیں۔ چنانچہ دونوں حضرات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت ماعزا سلمی نے اقرار جرم کیا اور جب یقینی ثبوت فراہم ہوگیا تو آپﷺ نے حد جاری کرنے کا حکم دے دیا، لیکن حضرت ہزال بن نعیم سے فرمایا ’’اگر تم اس کو اپنے پردے ہی میں چھپا لیتے تو یہ تمہارے لئے اچھا ہوتا‘‘۔ (ابوداؤد)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی تھا کہ جب تک کسی کا جرم سامنے نہ آجاتا، خود کھوج نہ فرماتے۔ زنا تو ایک ایسا جرم ہے، جو لازماً دو افراد کے اشتراک سے ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی اقرار کرنے والا جب تک دوسرے کا نام نہ لیتا آپﷺ خود نہ پوچھتے کہ ’’زنا کس سے ہوا؟‘‘۔ متعدد مقدمات میں آپﷺ نے صرف ایک پر حد جاری کردی، اس لئے کہ دوسرے کا نام ہی نہ آیا، البتہ جب کوئی اقراری مجرم یہ بھی ظاہر کردیتا ہے کہ یہ فعل کس کے ساتھ ہوا، تب آپﷺ دوسرے سے پوچھتے۔ اگر وہ بھی اقرار کرلیتا تو اس پر حد جاری فرماتے، ورنہ اس کو چھوڑ دیتے۔ چنانچہ ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ وہ فلاں عورت سے زنا کا مرتکب ہوا ہے۔ آپﷺ نے اس عورت کو بلاکر پوچھا، مگر اس نے انکار کردیا۔ آپﷺ نے عورت کو چھوڑ دیا اور صرف مرد پر حد جاری کردی۔ (مسند احمد، ابوداؤد)
اسی طرح ایک دوسرے مقدمہ میں اقراری مجرم نے یہ بتا دیا کہ اس نے فلاں عورت سے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا تو عورت نے اقرار کیا، لہذا آپﷺ نے دونوں پر حد جاری فرمادی۔ (صحاح ستہ)
لیکن اس عدم تجسس کا مطلب عدم نگرانی ہرگز نہیں ہے، نگرانی بہرحال ایک انتظامی عمل ہے، جو ہونا چاہئے۔ جہاں تک نگرانی کا تعلق ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود نگرانی فرماتے اور جہاں کوئی غلط کام دیکھتے، نوعیت کے مطابق اس کا تدارک فرماتے۔ خلفائے راشدین کا عمل بھی یہی تھا، نگرانی کے لئے روز مرہ کی گشت بعض خلفاء کا معمول تھا، لیکن ان کا یہ عمل بہرحال تجسس نہیں تھا۔

(۲) حتی الامکان دفع حد: دوسرا اصول یہ ہے کہ حتی الامکان سزا کو دفع کریں، لیکن ناگزیر ہوجائے تو دی جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’مسلمانوں کو سزاؤں سے دور رکھو جہاں تک بھی ممکن ہو۔ اگر کسی ملزم کے لئے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اس کا راستہ چھوڑدو، کیونکہ حاکم کا معاف کردینے میں غلطی کرجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کرے‘‘ (ترمذی) نیز فرمایا ’’سزاؤں کو دفع کرو، جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پاؤ‘‘۔ (ابن ماجہ)

’’عدم تجسس‘‘ کے سلسلے میں جو احادیث اور واقعات بیان ہوئے، ان سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ سزاؤں سے حتی الامکان لوگوں کو بچایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ’’شبہ‘‘ سزا دینے کے لئے نہیں، بلکہ معاف کرنے کے لئے محرک ہے۔ شبہ کا ہر فائدہ ملزم کو پہنچایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی اقراری مجرم عین سزا کے دوران اپنے اقرار سے پھر جائے تو سزا کو فوراً روک دینا چاہئے، خواہ یہ بات صریحاً ہی کیوں نہ ظاہر ہو رہی ہو کہ وہ تکلیف سے بچنے کے لئے اقرار سے رجوع کر رہا ہے۔

حضرت ماعزا سلمی رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعہ میں یہ ہوا کہ جب انھیں سنگسار کیا جانے لگا تو وہ تکلیف سے تڑپ کر نکل بھاگے، مگر لوگوں نے پکڑ لیا۔ انھوں نے کہا ’’مجھے تو میرے قبیلہ والوں نے مروادیا، مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو‘‘۔ مگر لوگوں نے نہ مانا اور سنگسار کردیا۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے فرمایا ’’وہ جب آنا چاہتے تھے تو انھیں میرے پاس لے آتے، شاید وہ توبہ کرتے اور اللہ تعالی ان کی توبہ قبول فرماتا‘‘۔
(۳) آزاد مرضی: تیسرا اصول یہ ہے کہ مجرم نے ارتکاب جرم اپنی آزاد مرضی سے کیا ہو، کسی مجبوری نے اسے جرم پر آمادہ نہ کیا ہو۔ یہی وجہ تھی کہ قحط سالی کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قطع ید کی سزا حالات معمول پر آنے تک موقوف کردی، کیونکہ قحط کے عالم میں لوگ مجبوراً چوری کرلیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مجنون (پاگل) کو سزا نہیں دی جاتی، کیونکہ اس میں اس کی اپنی آزاد مرضی شامل نہیں ہوتی۔ بہرحال یہ ایک فطری اصول ہے، جو کسی تفصیلی وضاحت کا محتاج نہیں۔