افغانستان میں کیا سعودی عرب ہندوستانی مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے ؟

   

سدھارتھ
نیشنل لا اسکول بنگلورو
کابل کی سڑکوں پر افراتفری کا ماحول ہے، لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے، کہیں گولیاں چل رہی ہیں تو افغانستان کے کسی حصے میں کی جانے والی بمباری کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ بے شمار ایسی عمارتیں ہیں جو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہیں، لیکن چند ہفتے قبل ایسا نہیں تھا۔ زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ کل کے افغان شہری اپنے ذہنوں میں خواب سجائے ہوئے تھے اور افغان شہری اُن خوابوں کو حقیقت کی شکل میں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ امریکہ نے ان خوابوں کو ایک شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے وہاں شہری حقوق اور خواتین کو بااختیار بنانے کے معاملے میں ٹھوس اقدامات کرنے اور انہیں فروغ دینے کی کوشش کی جو یقینا ایک کارنامہ ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغان شہریوں نے جو خواب دیکھا تھا، وہ ایک المناک حقیقت میں تبدیل ہوگیا اور ان خوابوں کا جنازہ اُٹھا تب اس جنازہ کو کندھا دینے والوں میں امریکہ بھی شامل تھا۔ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے، جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، بطور خاص اس بارے میں تمام ہندوستانیوں کو تشویش ہے۔ سال 2015ء میں وزیراعظم نریندر مودی نے افغان پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح انجام دیا تھا جس سے علاقہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے سے متعلق ہندوستان کی جدوجہد کو ایک نئی جہت ملی اور ایسا لگ رہا تھا کہ ایک نئی صبح کا آغاز ہوا۔ اب یہ سوال ہم تمام کا پیچھا کررہا ہے کہ اب ہم یہاں سے کہاں جائیں یعنی افغانستان میں ہم نے جو کچھ تعمیراتی کام انجام دیئے، فی الوقت وہاں ہندوستان کا رول کیا ہوگا۔ ہندوستان نے ہمیشہ افغانستان کے عزائم کی تکمیل کیلئے بھرپور مدد کی ہے، خاص طور پر افغانستان کے کلیدی بنیادی ڈھانچے یعنی انفراسٹرکچر کو فروغ دیا ہے۔ وہاں سرمایہ مشغول کیا ہے اور باہمی تجارت کے مواقع بڑھائے ہیں اور افغانیوں کی ضرورت کے مطابق بھرپور مدد کی اور انسانی بنیادوں پر ان کی اعانت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن طالبان کی واپسی نے افغانستان میں ہندوستان کے مسلسل کردار کے بارے میں غیریقینی حالات پیدا کردیئے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران طالبان ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا، وہ یقینا باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ طالبان ، کشمیر میں ہندوستانی مسلمانوں کیلئے آواز اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سہیل شاہین کا یہ بیان ان کے سابقہ موقف سے متضاد ہے۔ سابق میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان ، کشمیر پر ہندوستان کی داخلی پالیسیوں میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔ اُن کے تازہ ترین بیان نے ہندوستانی عوام اور حکومت میں ایک قسم کا خوف پیدا کیا ہے۔ مختلف خدشات اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ ہندوستانی وزیر اقلیتی بہبود مختار عباس نقوی نے برسر عام طالبان سے اپیل کی کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیں، ان کی فکر نہ کریں بلکہ ہندوستان کی سکیولر جمہوریت کا احترام کریں جہاں مساجد میں نماز ادا کرنے والے نمازیوں پر حملے نہیں ہوتے، جہاں لڑکیوں کو اسکول جانے سے نہیں روکا جاتا۔ بہرحال جو حالات تبدیل ہورہے ہیں اس کے بارے میں پہلے تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔ خاص طور پر ہندوستانی سفیر برائے قطر دیپک متل نے دوحہ میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سے پہلی مرتبہ سرکاری طور پر رابطہ قائم کیا۔ ہندوستانی سفیر نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ افغانستان کی سرزمین کہیں ہندوستان کے خلاف استعمال تو نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ سرزمین افغانستان کو ہندوستان مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے جس پر طالبان نمائندہ نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔ لیکن حالیہ عرصہ کے دوران جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، اس سے ہندوستانی قانون سازوں میں الجھن پیدا ہوگئی ہے۔ اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ طالبان ترجمان نے بی بی سی کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں کشمیر پر جو ریمارکس کئے ہیں، جو ہندوستان کے دشمن متعدد تنظیموں یا گروپس جیسے لشکر طیبہ، جے ای ایم ، اے کیو آئی ایس کی سرگرمیوں میں اضافہ کا باعث بنے گی۔ ہاں طالبان اور ہندوستان کے تعلقات کو خوشگوار بنانے میں ان کے درمیان تعاون و اشتراک کو بڑھانے میں ایک چیز اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور وہ ہے سعودی عرب کی امکانی مدد۔ اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کیا سعودی عرب ، ہندوستانی مفادات کا عالمی اور ملکی سطح پر تحفظ کرے گا؟ لیکن اس کام کیلئے سعودی عرب کیوں۔ یہ بھی سوال پیدا ہورہا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ طالبان کے اُبھرنے میں سعودی عرب کا بھی اہم کردار رہا۔ دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کے خیال میں مابعد سوویت یونین دور افغانستان کے طول و عرض میں ایک نیابتی طاقت کے طور پر طالبان کے ابھرنے میں سعودی عرب کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ستمبر 2001ء یعنی 9/11 دہشت گردانہ واقعات کے ساتھ ہی سعودی عرب نے طالبان حکومت سے اپنے تمام سفارتی تعلقات منقطع کرلئے۔ سعودی عرب کا یہ موقف تھا کہ طالبان اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کررہے ہیں اور دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں۔ تب سے ہی سعودی عرب میں عالمی سطح پر انسداد دہشت گردی پالیسیوں کے معاملے میں کافی اقدامات کئے، جو قابل ستائش ہیں۔ سعودی عرب نے خود کو عالم اسلام کا لیڈر بھی ثابت کیا اور اس کی ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ وہ عالم اسلام کی قیادت کرتا رہا۔ حالیہ برسوں میں ہندوستان نے سعودی عرب مستقبل کا ایک بہترین شراکت دار کی حیثیت سے تسلیم کیا اور پھر تجارت، دفاع اور توانائی جیسے اہم شعبوں میں ہندوستان کے تعاون و اشتراک کیا۔ حال ہی میں سعودی عرب اور ہندوستان نے اپنی پہلی مشترکہ بحری مشق کا اہتمام کیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ دفاعی شعبہ میں تعاون بڑھانے کے کافی امکانات پائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان میں جاری موجودہ صورتحال کے تناظر میں ہندوستانی وزیر خارجہ ڈاکٹر جئے شنکر نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر سے گفت و شنید کی۔ دونوں کے درمیان علاقائی مسائل موضوع بحث رہے۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو دونوں لیڈروں نے افغانستان کی صورتحال پر بڑی گہرائی کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ اگرچہ اس بارے میں زیادہ انکشاف نہیں کیا گیا، اس کے باوجود ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان افغانستان پر اہم تبادلہ خیال ہوا ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ ہندوستانی قانون سازوں کو افغانستان اور طالبان سے خوشگوار تعلقات کیلئے سعودی عرب کی جانب دیکھنا ضروری ہے۔