افغانستان کے حالات …امریکہ ذمہ دار

   

سعید نقوی
گزشتہ ہفتہ افغانستان میں بالآخر سامراجیت کی موت ہوگئی۔ یہ وہی سامراجیت ہے جس نے 1970ء کے وسط میں ہچکیاں لینا شروع کی تھی اور اِن ہچکیوں میں ویٹنام جیسے ملک میں جو سنگین نتائج برآمد ہوئے، وہ سامراجیت کیلئے انتہائی سنگین ہچکی ثابت ہوئی۔ اسی طرح مختلف ملکوں میں جو سامراجی طاقتوں کے زیراثر تھے یا اُن کی کالونیوں میں تبدیل ہوچکے تھے، اُن سے چھٹکارے کیلئے تحریکوں کا آغاز ہوا اور ان تحریکوں کو دنیا بھر میں ’’حریت پسندوں کی تحریک‘‘ یا ’’آزادی کی تحریکوں‘‘ کا نام دیا گیا۔ مثال کے طور پر آفریقہ میں عوام ان سامراجی طاقتوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے، تب پرتگال کو وہاں سے دستبرداری اختیار کرنی پڑی اور انگولا اور موزمبیق جیسے ملکوں میں سامراجی و استبدادی طاقتوں کے کمزور پڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کمیونسٹ جماعتوں کو اقتدار حاصل ہوا۔ ایتھوپیا میں مینگسٹو جیسا لیڈر منظر عام پر آیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد نکاراگوا میں ڈینیل اورٹیگا نے انقلاب برپا کیا۔ اسی طرح کے انقلاب ،ایران اور جنوبی ایشیائی علاقہ میں دیکھے گئے ، دوسری طرف افغان کمیونسٹوں نے اپریل 1978ء میں شاہی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خلق اور پرچم کو اقتدار پر بٹھا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان انقلابات میں اور مختلف حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں امریکی انٹلیجنس کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔ جس وقت کابل میں پہلی پریس کانفرنس کا نور محمد تارکی نے اہتمام کیا تھا، راقم وہاں موجود تھا۔ نور محمد پہلے کمیونسٹ وزیراعظم تھے۔ میں نے افغان بغاوت کے بارے میں جو تحقیقاتی رپورٹ پیش کی، وہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کے ادارتی صفحہ پر بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی گئی تھی جسے میرے لئے کابل پہنچایا گیا۔
سابق صدر امریکہ جمی کارٹر کے قومی سلامتی مشیر بکنیو بیرزینسکی کو ایک عالمی آرڈر یا عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے مختلف علاقوں کے دوروں پر روانہ کیا گیا کیونکہ امریکہ اچھی طرح جانتا تھا کہ علاقہ کی بااثر حکومتیں اور قائدین آنے والے دنوں میں اہم کردار ادا کریں گے۔ بیرزینسکی نے اپنی کتاب میں افغان بغاوت کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ کتاب میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ افغانستان کے شاہ نے کابل میں اپنے حامیوں کو جمع کیا، جہاں محمد داؤد بھی موجود تھے۔ محمد داؤد دراصل ایک مارکسسٹ نما تھے اور ان کا زیادہ تر جھکاؤ ماسکو (روس) کی طرف تھا۔ منصوبہ یہ بنایا گیا کہ داؤد کے اطراف جو کٹر کمیونسٹ تھے، انہیں موت کی نیند سلادیا جائے جیسا کہ کئی خفیہ کارروائیوں میں پایا گیا۔ دراصل شاہ نے اس کام کیلئے ساوک کی خدمات حاصل کی تھیں، لیکن حسن اتفاق سے ساوک نے جو سازش رچی تھی، اس کا افشاء ہوگیا۔ ہوا یوں کہ ایک کمیونسٹ ٹریڈ یونین لیڈر میر اکبر خیبر کو غیرارادی طور پر قتل کردیا گیا جس کے ساتھ ہی افغانستان میں موجود کمیونسٹ، ساوک کے منصوبہ سے خبردار ہوگئے اور چوکسی اختیار کرلی گئی اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ اسلم وطنجار اور عبدالقادر دجراوال جیسے اعلیٰ فوجی عہدیداروں نے فوجی دبابوں کو حرکت دی اور پھر یہ مسلح گاڑیاں صدارتی محل میں داخل ہوگئیں، جہاں محمد داؤد اور ان کے رشتہ داروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اور پھر کمیونسٹوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جیسے ہی افغانستان میں اقتدار پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہوا، سوویت یونین کیلئے وہاں اہم کردار ادا کرنے کی راہ ہموار ہوئی، لیکن جمی کارٹر کے مشیر قومی سلامتی برزینسکی فوری حرکت میں آگئے اور پھر وہ پاکستان سے امریکی قربت کو مستحکم کرنے میں مصروف ہوگئے۔ دراصل امریکہ، پاکستان کے ذریعہ افغانستان میں ایک نئی فوجی چال چلتے ہوئے سوویت یونین کے اثر کو اور وہاں قائم کمیونسٹ حکومت کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا خواہاں تھا۔ اگر دیکھا جائے تو امریکہ یا پاکستان کو افغانستان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ انہیں مفادات عزیز تھے۔ اس معاملے میں امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان آگے آئے اور امریکہ ، افغانستان سے سوویت یونین کو نکال باہر کرنے کی خاطر مجاہدین کو فوجی تربیت اور آلاتِ حربی یعنی فوجی ساز و سامان فراہم کرتا رہا۔
سعودی عرب اور پاکستان یہی چاہتے تھے کہ امریکی کوششوں کا نتیجہ جلد برآمد ہو، ساتھ ہی اِن دونوں ملکوں کے اپنے ایجنڈے بھی تھے۔ سعودی عرب نے بھی اس وقت اربوں روپئے افغانستان پر خرچ کردیئے۔ اس کا مقصد کہا جاتا ہے کہ پڑوسی ایران پر اثرانداز ہونا تھا کیونکہ وہاں ایک سال قبل ہی آیت اللہ خمینی نے انقلاب برپا کیا تھا۔ ایسے میں عالمی طاقتوں کی نظر صدر پاکستان ضیاء الحق پر پڑی جو علاقہ میں اسلامی نظریات کو فروغ دینے کیلئے انتہائی موزوں تھے اور ان کے ذریعہ افغانستان میں امریکہ، سوویت یونین کو نیچا دکھا سکتا تھا۔ ضیاء الحق نے نظام مصطفی یا شرعی قوانین کی بنیاد پر حکومت کے مقاصد کا اعلان کیا جس سے وہاں کے لوگوں میں اسلامی تعلیمات فروغ پاسکیں تاکہ اس کا اثر پڑوسی افغانستان پر بھی مرتب ہو جبکہ ہندوستان میں سکیولرازم اور مشترکہ تہذیب فروغ پا رہی تھی، لیکن آج اگر ضیاء الحق زندہ ہوتے تو وہ ہندوستان میں ہونے والے سماجی ارتقاء اور موجودہ حالات سے بہت خوش ہوتے۔ بہرحال ضیاء الحق کو اقتدار پر لایا گیا اور ان کے اقتدار پر آتے ہی نظام مصطفی کے نعرے لگے، سرحد پار پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس وجود میں آئے اور ان مدرسوں کو ’’مجاہدین کی تربیت کے مراکز‘‘ بنایا گیا اور پھر ان مجاہدین نے 1989ء میں افغانستان سے سوویت یونین کو نکال باہر کرنے میں عملاً مدد کی۔ ایک سال بعد سوویت یونین زوال سے دوچار ہوا، لیکن امریکیوں نے سوویت زوال کے بعد جاتے ہوئے بیروزگار مجاہدین کو چھوڑا اور ان لوگوں نے کشمیر، مصر اور الجیریا میں خدمات انجام دینی شروع کردی اور پھر ان مجاہدین کے روحانی وارثوں کو حال ہی میں شام میں جو خون آشامی ہوئی اس میں استعمال کیا گیا۔ ہیلاری کلنٹن جب امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہوئیں اور ان کے نقطہ نظر کی سماعت ہوئی، اُس وقت انہوں نے افغانستان میں کھیلے جارہے کھیل اور پاکستان کے کردار کے بارے میں ڈھیر سارے انکشافات کئے۔ ان کا بیان اب بھی YouTube پر دستیاب ہے۔
چند سال قبل روسی نائب وزیر خارجہ مرگلوف ایگور ولادیمیروچ نے ایک اعلیٰ سطحی مذاکرات میں بتایا کہ شام سے عسکریت پسندوں کو طیاروں میں بھر کر شمالی افغانستان پہنچایا گیا ہے۔ اس کے ایک ہفتہ بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے تہران میں دیئے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ میں ان الزامات کو دُہرایا۔ ان تمام باتوں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ سچ ہے یا پھر چند برسوں میں حالات تبدیل ہوئے ہیں۔
سال 1996ء میں طالبان جو مجاہدین میں سے نکل کر باہر آئے ، امریکہ نے ان کی سوویت یونین کے خلاف بھرپور مدد کی۔ امریکیوں اور ان کے حلیفوں بشمول ساؤتھ بلاک کے ایک حلقہ نے طالبان کی مدد کی اور پھر 1991ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس کے بعد امریکہ تو خاموش رہا لیکن طالبان کی طاقت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ آنے والے دنوں میں طالبان افغانستان کو کنٹرول کرے گا اور امریکہ طالبان کو کنٹرول کریں گے اور یہ کوآرڈینیشن UNOCAL’s TAPI (ترکمانستان۔ افغانستان ۔ پاکستان ۔ انڈیا) گیاس پائپ لائن بچھانے میں مدد دے گا۔ 2005ء میں UNOCAL شیوران کو فروخت کردیا گیا اور پھر افغانستان میں رہنے کیلئے امریکہ کو دوسرے بہانے مل گئے ۔ ایک طرف جوہری اسلحہ سے لیس پاکستان تھا۔ ژنجیان (چین) میں ایغور مسلمان تھے اور قفقاص میں مسلم آبادی امریکہ کیلئے تشویش کا باعث بن رہی تھی اور دوسری طرف افغانستان میں رئیل اسٹیٹ اور ہیلمند میں لاقیمت منشیات بھی امریکہ کو افغانستان کی طرف کھینچنے کا سبب بنا۔ دوسری طرف القاعدہ کے بانی اُسامہ بن لادن نے افغانستان کو اپنا ہیڈکوارٹرس بنایا اور 1980ء سے وہ وہیں رہے، ان کا ایک ہی مشن تھا کہ سوویت یونین کے خلاف طالبان کی مدد کریں اور روسی فوج کو افغانستان سے نکال باہر کریں، کیونکہ اُسامہ بن لادن کی نظر میں ایک مسلم ملک پر قبضہ اسلام کی توہین تھا ، سوویت یونین اور روسی فوج شکست کھانے کے بعد افغانستان سے نکلنے میں اپنی عافیت سمجھی تب بن لادن نے افغانستان میں موجود بیرونی فورسیس اور اپنے ہی وطن میں کام کرنے والی تیل کی کمپنیوں پر نظر رکھنے کی شروع کردی۔ بن لادن نے ریاض (سعودی عرب) کے خلاف عَلم بغاوت بلند کیا جس کے فوری بعد جہیمان العتیبی نے مسجدالحرام جیسے مقدس ترین مقام کو 20 دنوں تک یرغمال بنائے رکھا جس کا مقصد سعودی حکومت کا تختہ اُلٹنا تھا۔ اس واقعہ نے مملکت سعودی عرب کو دہلا کر رکھ دیا۔ بہرحال سعودی شاہی خاندان کے بش خاندان سے گہرے و مضبوط تعلقات تھے اور پھر تہذیبوں کے تصادم کے پس منظر میں جارج ڈبلیو بش جنوری 2001ء میں بحیثیت صدر وائٹ ہاؤز میں داخل ہوئے اور 8 ماہ بعد 9/11 کا واقعہ پیش آیا اور پھر اس بہانے امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔
بہرحال اب جو کچھ ہوا، اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ امریکیوں کے تربیت یافتہ سپاہیوں نے طالبان کے خلاف جنگ نہیں کی۔ ویٹنام میں کیا ہوا؟ یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسی طرح شام کے انتہا پسندوں کو تربیت کیلئے امریکہ نے 500 ملین ڈالرس کا ایک پراجیکٹ شروع کیا، اس سلسلے میں سینیٹ کی مسلح خدمات سے متعلق سلیکٹ کمیٹی نے موجودہ ڈیفنس سیکریٹری (وزیر دفاع) جنرل لائیڈ آسٹن سے بھی اس تعلق سے سوالات کئے تھے اور پوچھا تھا کہ ہمارے کتنے تربیت یافتہ سپاہی لڑ رہے ہیں اور آسٹن نے کچھ وقفے کے بعد جواب دیا تھا کہ چار یا پانچ ۔ تاہم میڈیا اس طرح کے طنزیہ باتیں اپنی رپورٹس میں پیش کرتا رہتا ہے۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں تھامس فرائیڈمین نے طنز و مزاح سے بھرپور اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ وہ صبح جلد ہی آئے گی جب طالبان اپنی پگڑیاں ہاتھوں میں تھامے وائٹ ہاؤز پہنچیں گے اور کہیں گے جناب ! برائے مہربانی پھر ایک بار ہمارے ملک پر قبضہ کیجئے۔