الزام تراشی کی نہیںکام کی ضرورت

   

چھپائے بیٹھے ہیں سب خنجر آستینوں میں
یہ کیسا رشتہ ہے کیساہے یہ یہاں کا چلن
ملک میں گذشتہ دس برس سے بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی کی حکومت ہے ۔ گذشتہ دس برس میں بی جے پی حکومت کی جانب سے مسلسل کانگریس کو ملک کی کئی پریشانیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے ۔ کئی مسائل ایسے پیش کئے گئے ہیں جن کو کانگریس کی دین کہا جاتا ہے ۔ پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر سونیا گاندھی ‘ راہول گاندھی ‘ منموہن سنگھ اور ملکارجن کھرگے کو بھی ذمہ دار قرار دینے سے گریز نہیں کیا جاتا ۔ مہنگائی پر سوال پوچھا جائے تو نہرو کو جواب دہ قرار دیا جاتا ہے ۔ بیروزگار پر سوال کیا جائے تو اندرا گاندھی کو گھسیٹا جاتا ہے ۔ ملک میں بڑھتی مشکلات پر سوال کیا جائے تو اس کا کچھ اور جواب دیا جاتا ہے ۔ یہ ساری صورتحال خودا پنی کارکردگی کو چھپانے کی کوشش میں پیدا ہوتی ہے ۔ اب بھی نریندرمودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ گذشتہ دس برس کے اپنے کام کاج کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنے کی بجائے کانگریس کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہے گویا کانگریس کی ناکامیاں ہی بی جے پی کے کارنامے ہیں۔ ملک میں حکمرانی اور حالات کو بدلنے کیلئے دس سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا ۔ دس سال میں مرکزی حکومت نے جو کچھ بھی کام کئے ہیں ان کو عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے لیکن ایسا نہیں کیا جا رہاہے ۔ملک کی معیشت پر وائیٹ پیپر جاری کرتے ہوئے مودی حکومت ایک بار پھر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔ مودی حکومت نے آج تک یہ جواب نہیں دیا ہے کہ سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والی حکومت نے گذشتہ دس سال میں کتنے نوجوانوںکو روزگار فراہم کیا ہے ۔ یہ ایسا سوال ہے جو گودی میڈیا پوچھنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا ۔ اگر کوئی مسلسل سوال کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ جواب نہیں دیا جا رہا ہے کہ ملک میں مہنگائی اپنی حدوں کو کیوں پہونچ چکی ہے ۔ اب تو آٹے اور چاول کے بھاؤ بھی آسمان سے بات کرنے لگے ہیں اور یہ عام آدمی کی رسائی سے باہر دکھائی دینے لگے ہیں۔ دودھ اور ادویات کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں اور حکومت اس کا جواب دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ۔
مودی حکومت نے معیشت پر وائیٹ پیپر جاری کرتے ہوئے کانگریس کو نشانہ تو ضرور بنایا ہے اور کہا کہ 2014 کے بعد سے دس سال میں حالات کو سدھارا گیا ہے ۔ یہ محض ایک زبانی دعوی ہے ۔ حکومت نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ 2014 میں ملک میں کتنی سرکاری نوکریاں تھیں اور مودی حکومت نے ان کی تعداد کو کم کرتے ہوئے اس کو کہاں تک پہونچا دیا ہے ۔ یہ جواب نہیں دیا جا رہا ہے کہ عوامی شعبہ کی کتنی صنعتیں ایسی ہیں جنہیں مودی کے دوست صنعتکاروں کو سونپ دیا گیا ہے ۔ یہ سودے بازیاں بھی کوڑیوں کے مول ہوئی ہیں ۔ عوامی شعبہ کی ان کمپنیوں میں کتنے روزگار تھے جن سے ہندوستان کے نوجوان محروم ہوگئے ہیں۔ مودی حکومت نے یہ جواب دینا ضروری نہیں سمجھا کہ کتنی نئی یونیورسٹیز حکومت کی جانب سے قائم کی گئی ہیں اور کتنے تعلیمی اداروں میں معیار کو بہتر بنایا گیا ہے ۔ حکومت یہ جواب ضرور دے سکتی ہے کہ کتنی جامعات میں نصاب کو زعفرانی رنگ دینے کے منصوبے تیار کئے گئے ہیں اور کتنے مقامات پر ان منصوبوں پر کامیابی سے عمل آوری ہوگئی ہے ۔ حکومت نے ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کیا ہے کہ سرکاری نوکریوں کا سلسلہ آخر کب شروع ہوگا اور ملک میں بیروزگاری کے خاتمہ کیلئے اگر کانگریس اور نہرو ذمہ دار ہیں تو پھر گذشتہ دس برس میں مودی حکومت نے کیا کچھ کرلیا ہے ؟ ۔ یہ شبہات ہیں کہ گذشتہ دس سال میں ملک میں سرکاری نوکریوں کی تعداد میں اضافہ کرنا تو دور کی بات ہے بلکہ ان میں خاطر خواہ کمی کردی گئی ہے ۔
کانگریس کی پالیسیوں اور اس کی کارکردگی سے ملک کے عوام ناراض ضرور تھے جس کی وجہ سے ہی بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ مودی حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ عوام کی تکالیف اور شکایات کو دور کرتی ۔ کانگریس کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہنا یا اسے مورد الزام ٹہراتے رہنا حکومت کا کام نہیں ہے ۔ سابقہ حکومتوں سے حالات کو مزید بہتر بنانا موجودہ حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس معاملے میں مودی حکومت نے کچھ واضح کارنامے انجام نہیں دئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے کام کیا جائے ۔