الور: ہجومی تشدد کا شکار ہونے والے اکبر خان اور عمر خان بے بچوں کے حوصلے بلند

,

   

ضلع سطح کی کھیل کو د مقابلوں میں میڈل جیتے‘ ریاستی سطح کے مقابلوں کے لئے محنت جاری‘ نفرت کے سوداگروں کے منہ طمانچہ

الور۔ ہجومی تشدد میں مارے گئے اکبر خان اور عمر خان کے گھر والے اور بالخصوص ان کے بچے خوفزدہ نہیں ہیں۔ نفرت کے سوداگروں ے اکبر خان او رعمر خان کی جان تو لے لی لیکن ان دونوں کے بچوں کے حوصلہ کم نہیں کر پائے۔

ان دونوں کے بچے اپنے والد کے قتل کے باوجود مایوسی کاشکار نہیں ہوئے اور انہوں نے کھیل کودمیں ضلع سطح پر میڈل جیت کا ثابت کیا ہے کہ نفرت پھیلانے والوں سے وہ خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں اور کسی کو ہونا بھی نہیں چاہئے۔

ایسے تین خاندان ہیں ان کے والد ہجومی تشدد کاشکار ہوئے ہوئے تھے‘ ان کے چھ بچوں نے ضلعی سطح پر کھیل کود کے مقابلوں کے لئے محنت کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ اکبر خان کو جولائی2018میں جبکہ عمر خان کو نومبر2017میں ممنوعہ جانوروں کی اسمگلنگ کے شبہ میں ہجوم نے موت کے گھاٹ اتاردیاتھا۔

الور کے چاچا نہرومدرسہ میں زیر تعلیم ان بچوں کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طلباء او رمدرسہ انتظامیہ مدد کررہا ہے۔ علی گڑھ میں رہ کر یہ بچے قومی مقابلوں کی تیاری کررہے ہیں اور کھیل کود کے ساتھ تعلیم میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔

ملک کے سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کی اہلیہ سلمہ انصاری علی گڑھ میں مذکورہ مدرسہ چلاتی ہیں اور اس مدرسہ میں ہجومی تشدد کاشکار ہوئے والدین کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

مدرسہ کے پرنسپل محمد راشد کا کہنا ہے کہ مدرسے میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہندی انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہے۔

یہاں رکبر عرف اکبر خان کے تین اور عمر خان کے بیٹے سرفراز سمیت چھ بچے زیر تعلیم ہیں۔

محمد راشد کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اکبر او رعمر کے بچوں نے ضلع سطح کے مقابلوں میں کئی میڈل حاصل کئے ہیں۔ انہیں باکسنگ‘ کراٹے‘ کیرم وغیرہ کھیلوں میں تربیت دی جارہی ہے۔

اس مدرسے کے دوسرے بچے صوبائی سطح پر باکسنگ میں میڈل جیتنے کے بعد اب قومی مقابلوں کی تیاری کررہے ہیں۔

ان بچوں ے حال ہی میں جھانسی میں ہوئے صوبائی سطح کے مقابلوں میں یہ میڈل جیتے ہیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے عامر منٹو نے علی گڑھ کو اپنا ٹھکانا بنایا ہوا ہے۔۔وہ ہجومی تشدد کاشکار ہوئے خاندانوں کے بچوں کی حصول تعلیم میں مدد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ مدرسے میں ان بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے او ران کو اچھا ماحول دے کر ان کے ذہنوں سے ان کے والد ے قتل کی خراب یادوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے