امریکہ ناقابل اعتبار

   

برکھا دت

1990ء کے اواخر اور 2000ء کے اوائل میں سرینگر میں ایک قبرستان تھا جہاں صرف بیرونی انتہا پسندوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ بحیثیت رپورٹر مجھے ان بے شمار انتہا پسندوں کی نعشیں دیکھنے کا موقع ملا جن میں سوڈان جیسے ملک سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند بھی شامل تھے۔ ان نعشوں میں کئی دراندازوں کی نعشیں بھی شامل تھیں جن کا تعلق افغانستان سے تھا اور ان لوگوں نے ہندوستان میں دراندازی کی تھی۔
طالبان کے بارے میں برطانوی چیف آف ڈیفنس نے جن خیالات کا اظہار کیا، وہ بھی قابل غور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور برطانوی فورسیس کے انخلا کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے مغربی ممالک ہماری انٹلیجنس کی توہین کریں۔ صدر جوبائیڈن نے جس طرح افغان بحران سے نمٹنے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ ایک قابل بھروسہ شراکت دار نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی ہی شروع کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقاصد حاصل کرنے میں بھی ایک معتبر و قابل اعتماد پارٹنر ثابت نہ ہوا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان ٹوئن ٹاورس پر دہشت گردانہ حملوں سے کئی دہے قبل سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ امریکی صدر شائد کابل میں جوں کی توں صورتحال سے پریشان ہوگئے جس کا دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا پر تباہ کن اثر مرتب ہوا تاہم پاکستان کے تئیں واشنگٹن کی پالیسی میں ایسا کوئی خلل پیدا نہیں ہوا۔ موجودہ حالات میں بھی اس کے دور دور تک کوئی اشارے نہیں ملتے۔ امریکہ نے صرف اس بات کو یقینی بنایا کہ دنیا اس سے بھی خطرناک جگہ ہے جو ایک ہفتہ قبل تھی۔ امریکہ نے ہندوستان کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو سال 2002ء سے امریکہ نے 33 ارب ڈالرس کی امداد فراہم کی جس میں سے 14 ارب ڈالرس علاقہ میں دہشت گردی کے مقابلہ کیلئے کوالیشن سپورٹ فنڈ کیلئے تھے۔ اگرچہ سابقہ ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد میں کٹوتی کی لیکن اس سے پہلے کی تمام امریکی حکومتوں نے پاکستان کی سرپرستی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ایک تشدد پسند ملک بن گیا۔
مغرب نے افغان جنگ کے دوران اسلام آباد پر نیٹو کیلئے ٹرانزٹ روٹس اور دوسرے Logistics کیلئے انحصار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کا مزید موقع مل گیا۔ پاکستان کی دراصل دہشت گردی سے مقابلہ کے نام پر اعانت کی گئی لیکن دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور اس منصوبہ بندی پر عمل آوری میں تعاون و اشتراک کا وہ ایک چیانل بن گیا۔ وہ ایک ذریعہ میں تبدیل ہوگیا۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے آپ اپنے مکان کی چوکیداری کیلئے چور کو تعینات کریں نہ صرف تعینات کریں بلکہ اُسے اچھی خاصی رقم بھی ادا کریں۔ بہرحال امریکہ، افغانستان سے دستبردار ہوچکا لیکن وہاں سے پاکستان کی ایک بڑی دستبرداری درکار ہے۔ اس کی بناء حقیقت میں یہ دہشت گرد اور دہشت گردی کو ایوارڈ سے نوازنا ہے۔
ہندوستان کیلئے موجودہ صورتحال بہت ہی دھماکو اور اس قدر خطرناک ہے جو پہلے کبھی نہیں تھی۔ میں نے فوج کے سابق اعلیٰ عہدیداروں کے بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 2021ء میں جو ہندوستان ہے، وہ دو دہوں قبل کا ہندوستان نہیں، طاقت اور رویہ دونوں میں وہ پہلے سے بہت مختلف ہوگیا ہے۔
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہلک و خطرناک دو محاذی جنگ کی ایک شکل ہم پر مسلط کئے جانے کاامکان ہے اور اس جنگ کیلئے فوجی جرنیل برسوں سے کھیل کھیل رہے ہیں۔ ہم نے اپنی ساری توجہ واشنگٹن اور اسلام آباد پر مرکوز کرکے اُس چین کو یکسر فراموش کردیا جس نے کابل پر طالبان کے قبضہ سے قبل ہی ایک طالبانی وفد کی میزبانی کی۔ چین کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے خلاف کب کیا کرے جبکہ ایک ڈگمگاتا امریکہ اور سرکش و ضدی پاکستان یہ تینوں ہمارے ملک کے سامنے حقیقتوں کی شکل میں موجود ہیں اور ہمیں ان تینوں ممالک کا سامنا کرنا اور ان کی کسی نہ کسی طرح مزاحمت کرنا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہورہا ہے جبکہ کووڈ۔ 19 کو پوری طرح شکست نہیں ہوتی اور ہمیں ہنوز یقین نہیں ہے کہ کورونا کی تیسری لہر ابھی آسکتی ہے یا نہیں۔
ہندوستان کیلئے محدود پسند و انتخاب کا ایک مینو ہے۔ ہندوستان کو کچھ بڑی تیزی سے کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر جموں و کشمیر ہمارے سامنے ہے جہاں ریاست کے درجہ کی بحالی میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ دوسری طرف طالبان سے مذاکرات کے دروازہ کھلے رکھنا چاہئے۔ ان کے ساتھ رسمی رابطہ قائم کرتے ہوئے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اگرچہ افغانستان میں آئی تبدیلی ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہے، اس کے باوجود ’اوپن ڈور پالیسی‘ کے تحت ہمیں افغان عوام کے ساتھ ٹھہرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہم ہنگامی ویزے جاری کرتے ہوئے اچھی شروعات کرسکتے ہیں اور حالات پر قابو پاسکتے ہیں اور پاکستان سے متعلق جو امریکی پالیسی ہے، اسے تبدیل کرواسکتے ہیں۔ اس کے اثرات کو زائل کراسکتے ہیں۔