امریکی پولیس نے سیاہ فام شخص کے کتے کو گولی ماردی‘ سال 2015کاویڈیو منظرعام پر۔ ویڈیو

,

   

مذکورہ مجبور جانور اپنی آخری سانسیں لیتے ہوئے دہشت زدہ ہے اور اپنے مالک کے ہاتھوں میں ہتھکڑیوں کو بے بسی کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی مدد سے قاصر ہیں

کیلی فورنیا۔ ایک ویڈیو ان دنوں انٹرنٹ پر تیزی کے ساتھ گشت کررہا ہے جس میں ہاؤ تھرون پولیس افیسر ایک سیاہ فام شخص شخص کے کتے کو بے رحمی کے ساتھ گولی ماری ہے۔

یہ ویڈیو جس پر کوئی تاریخ نہیں ہے کہ 30جون کے روز یوٹیوب پر پوسٹ کیاگیا جس میں ایک شخص کو کا ر چلانے کے دوران پولیس بریکیٹس کو پار کرتے ہوئے اور پھر توقف کے بعد موقع کی تصویریں نکالتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے

YouTube video

مائیکل گولڈین نے کہاکہ ان کے موکل لیون روسبی ایس ڈبلیو اے ٹی پولیس ٹیم کو دیکھ رہے تھے اور ان کی منظر کشی کررہے تھے جبکہ پولیس کا دعوی ہے کہ روسبی رکاوٹوں کے دوران افسروں کے کام میں خلل ڈال رہے تھے۔

روسبی جس کی عمر52 ّسال کی ہے کہ اپنے دوسالہ کتے میکس کے ساتھ چھل قدمی کرتے ہوئے اور اطراف واکناف میں کھڑی بہت ساری گاڑیوں کی اپنے فون سے منظر کشی کرتے ہوئے فوٹیج میں دیکھائی دے رہے ہیں۔

قریبی میں کھڑے افسروں کے ساتھ اپنے کتے کو کار میں واپس بیٹھانے سے قبل روسبی یہ الفاظ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ”سیول رائٹس کی خلاف ورزی“۔

کیونکہ مذکورہ افسران روسبی کی طرف برھتے ہیں‘ وہ بھی ان کی طرف بڑھنے لگے اور پھر انہیں تحویل میں لے لیاگیا۔

جب روسبی کو ہتھکڑیاں پہنائی جارہی تھی گاڑی کے عقب کی کھلی کھڑکی سے میکس نے یہ منظر دیکھا اور وہاں سے باہر آنے کی کوشش کی۔

گاڑی سے باہر آنے کے بعد برہم میکس مذکورہ افسروں پر بھونکنے لگا۔ ایک افیسر کریس ہف مین نے میکس کے گلے میں پڑا پٹا پکڑنے کی کوشش کی مگر مذکورہ جانور کے بے قابو ہونے کے بعد اس پر چار روانڈ فائیرنگ کردی۔

مذکورہ مجبور جانور اپنی آخری سانسیں لیتے ہوئے دہشت زدہ ہے اور اپنے مالک کے ہاتھوں میں ہتھکڑیوں کو بے بسی کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی مدد سے قاصر ہیں۔

اپنی آنکھوں کے سامنے کتے کے مالک روسبی نے میکس کو بے بسی کے ساتھ دم توڑ تے دیکھا۔روسبی کا کہنا ہے کہ وہ کتا نہیں تھا”وہ میرا چہرہ چومتا‘ ہاتھ چومتا تھا“۔

پولیس کا کہناہے کہ ”بے قابو ہونے کے بعد نہ صرف وہ پولیس پر بھونک رہا تھا بلکہ حملہ بھی کررہا تھا جس کی وجہہ سے فائیر نگ کرنا پڑا“