انسانیت دوست اور سماجی خدمت گزار جناب سیدخواجہ معین الدین مرحوم

   

پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبہ ٔ اردو ، جامعہ عثمانیہ ، حیدرآباد
زبان و ادب اور شعروشاعری ہی نہیں‘ بلکہ مذہب پرستی کا مقصد بھی یہی ہے کہ کوئی بھی انسان دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے نہ صرف خود خوشحال اور بحال رہے‘ بلکہ دنیا میں بسنے والے انسانوں کو بھی خوشحال اور بحال رکھنے کی کوشش کرے۔ اس مرحلہ میں دعویدار تو بے شمار مل جاتے ہیں‘ لیکن عملی طور پر اقدامات کرنے والوں کی تعداد ہمیشہ سے ہی کم رہی ہے‘ کیونکہ انسان ہمیشہ خود کو صاف ستھرا اور دوسروں کو بے بس اور مجبور سمجھنے کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ ایسے طریقوں سے بھی خدا کی ذات ناخوش ہوتی ہے۔ لیکن انسان کی اپنی سوچ اور اپنے عمل کرنے کے طریقوں کو دنیا کی کوئی بھی طاقت روک نہیں سکتی۔ حتیٰ کہ مذہب اور عقائد کے علاوہ اخلاق و تہذیب کے شائستہ انداز بھی انسان کی کج روی کو دور نہیں کرسکتے۔ خدابزرگ و برتر نے ہرقوم‘ ہر ملت اور ہر فرقے میں ہمہ اقسام کے انسانوں کو پیدا کیا ہے‘ جو اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہ کر دوسروں کی خدمت گزاری کے دعویدار ہوتے ہیں‘ لیکن بندوں کی حقیقی خدمت کرنے والوں کی تعداد میں ہمیشہ کمی واقع ہوتی رہی ہے۔ اس پس منظر میں اگر حیدرآبادی تہدیب اور مذہبی رکھ رکھاؤ کو ساتھ لے کر چلنے والی کسی شخصیت کا نام لیا جائے‘ تو بلاشبہ سیدخواجہ معین الدین کی شخصیت کو یہ اعزاز دیا جاسکتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ذات کو خدا کی خوشنودی کے لئے مصروف رکھتے تھے‘ بلکہ خدا کے بندوں کو بھی خوشی سے وابستہ کرنے کی تمام تدابیر اختیار کرتے رہتے تھے۔ سیدخواجہ معین الدین نے بیک وقت اردو زبان سے ایم اے کرنے کے علاوہ اسلامک اسٹڈیز سے ایم اے کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی جامعہ عثمانیہ کی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ کالج آف لینگویجس میں ابتدائی طور پر اردو کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس وقت کالج آف لینگویجس بیلچرس کوارٹرس کے احاطہ میں تھا‘ اسی دوران ان کی دوستی ’’شگوفہ‘‘ کے مدیر سیدمصطفی کمال سے ہوگئی اور اس دوستی نے انہیں انوارالعلوم کالج کے اسلامک اسٹڈیز کے استاد کے درجہ تک پہنچادیا‘ لیکن خدا نے ان کی یاوری کی‘ جس کے نتیجہ میں وہ جامعہ عثمانیہ میں انگریزی کے پروفیسر کی حیثیت سے متعین کئے گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ ہم جیسے اساتذہ بھی طالب علمی کے دور سے گزررہے تھے۔ غرض اردو اور اسلامیات کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب سے دلچسپی کا نتیجہ یہ رہا کہ وہ تین اہم ذہنی صلاحیتوں یعنی اسلامی مزاج اور اردو ادب کی نغمہ سنجی کے علاوہ انگریزی زبان کی حقیقت پسندی کی نمائندگی کا موقع مل گیا۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کے تمام ماسٹرڈگری کے امتحانات دینے والوں کو عالمی سطح کی انگریزی زبان سے واقفیت دلانے کے لئے باضابطہ گرامر اور انگریزی بات چیت کے کورس کو متعارف کروایا‘ جس کی وجہ سے آرٹس‘ سائنس اور کامرس کے شعبہ میں تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلبہ اس وجہ سے بھی اس کورس میں داخلہ لیا تاکہ عالمی طور پر مقبولیت رکھنے والی زبان میں دستگاہ حاصل ہوجائے تو ان کے اپنے مضمون میں کامیابی کے ساتھ معیاری انگریزی کا استعمال ممکن ہوجائے۔ جامعہ عثمانیہ کے تمام شعبہ جات کو اتحادی گروپ میں شامل کرنے کے لئے سیدخواجہ معین الدین کی کوشش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی اس کوشش کو وائس چانسلر ہی نہیں‘ بلکہ رجسٹرار اور پرنسپلس کی طرف سے تعاون کا موقع فراہم ہوگیا۔ غرض جامعہ عثمانیہ میں انگریزی زبان کے اس کورس کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی‘ جو بلاشبہ سیدخواجہ معین الدین کی جستجو اور ان کی کوششوں کا ثمرہ قرار دیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ اس طرح طلبہ کی خدمت کا جذبہ لے کر سب سے پہلے خواجہ معین الدین صاحب نے جامعہ عثمانیہ کے ہر فرقہ‘ ذات اور طبقہ کے طلباء اور طالبات میں خلوص پیدا کرکے انگریزی مضمون سے طالب علموں کو فیض پہنچاکر اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب رہے۔ اس طرح ملازمت کے ابتدائی دور سے ہی انہوں نے جامعہ عثمانیہ کے شعبہ انگریزی میں نمایاں کارکردگی کے مظاہرے کا آغاز کردیا۔

سیدخواجہ معین الدین کے والد کا نام سیداحمدمحی الدین تھا‘ جن کے گھرانے میں ان کی پیدائش 12؍جنوری 1945ء کو ہوئی۔ یہ دور ریاست حیدرآباد کے لئے حددرجہ ابتلاکا دور تھا۔ ملک میں جدوجہد آزادی کے نعرے لگائے جارہے تھے اور ریاست حیدرآباد کی خاندانی حکومت کے خاتمہ کے آثار نمودار ہورہے تھے۔ خواجہ معین الدین کے بڑے بھائی خواجہ حفیظ الدین نے حیدرآباد میں شعبہ تعلیمات سے وابستگی اختیار کی‘ جبکہ ان کے چھوٹے بھائی نے ملازمت کے بجائے کاروبار کو اہمیت دی۔ غرض حیدرآباد کی سرزمین میں چنچل گوڑہ کے قریب کے علاقہ میں خواجہ معین الدین کی تعلیم و تدریس کا اہتمام کیا گیا۔ ان کے والد اور دادا بھی مذہب کے سخت پیرو تھے۔ ان کے دادا کا تعلق پرگی کے مذہبی گھرانے سے تھا اور انہوں نے اپنے اہل خاندان کے ساتھ حیدرآباد منتقلی کو ضروری خیال کیا تو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ چھاؤنی نادعلی بیگ کے احاطہ میں سکونت اختیار کی اور اسی علاقہ میں سیدخواجہ معین الدین اور ان کے بھائیوں کی پرورش اور تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دور میں ملک پیٹ اور چنچل گوڑہ کے علاقہ میں سب سے اہم بزرگ حضرت محمدعبدالقدیر حسرت ؒکی بزرگی کے چرچے تھے۔ حضرت کے روحانی تصرفات کی خدمات کی وجہ سے نواب میرعثمان علی خاں آصف جاہ سابع نے انہیں جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات کے صدر کی حیثیت سے فائز کیا تھا۔ ان کے خاندان نے باضابطہ طور پر حضرت حسرت ؒسے مذہبی معاملات میں استفادہ کیا۔ غرض سیدخواجہ معین الدین اور ان کے بھائیوں کو مذہبی تربیت کا بہترین موقع فراہم ہوا‘ جس کا نتیجہ یہ رہا کہ وہ تمام عمر ادب‘ مذہب اور قومی یکہجتی کو فروغ دینے کے سلسلہ میں دامے‘ درمے ارو سخنے تیار رہا کرتے تھے۔
ادب‘ صحافت اور ترجمہ ان کی زندگی کے تین اہم مقاصد تھے۔ ادب کے معیارات کو قائم رکھنے والوں کی قدر کرنا اور ادبی کارنامے انجام دینے والوں سے دوستی برقرار رکھنا اور ادب میں کوئی بھی انفرادی کام پیش ہو تو اس کی ستائش کرنا سیدخواجہ معین الدین کی فطرت کا حصہ تھا۔ اسی کے ساتھ وہ اردو صحافت کی نمائندگی کے لئے بہت کچھ کرتے تھے۔ تاہم ان کا سب سے اہم کارنامہ یہ رہا کہ وہ بیک وقت دونوں زبانوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے نہ صرف کئی انگریزی زبانوں کے اردو میں ترجمہ کئے‘ بلکہ کئی اردو زبانوں کی کتابوں کے انگریزی میں ترجمہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ خدا نے انہیں ہردوزبانوں پر اس قدر عبور کا موقع فراہم کیا ہے کہ جس کے نتیجہ میں پیچیدہ سے پیچیدہ علمی و ادبی زبان کی دوسری زبان میں منتقلی کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ وہ ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے۔ اجمیرشریف کے سجادہ نشین نے اپنے جداعلیٰ کی فارسی میں لکھی ہوئی ضخیم کتاب کا ترجمہ مولانااعظم علی صوفی علیہ رحمہ کے سپرد دفن ہے۔ اس ضخیم کتاب کی رسم اجراء حیدرآباد میں عمل میں آئی۔ میری وساطت سے سیدخواجہ معین الدین نے 1313ھ میں شائع ہونے والی فارسی کتاب ’’معین الاولیاء‘‘ کا انگریزی ترجمہ انجام دیا اور یہ کتاب اب اشاعت کے مرحلہ میں ہے‘ جسے خواجہ سیدغیاث الدین چشتی علیہ رحمہ نے شائع کیا ہے اور انگریزی ترجمہ بھی توقع ہے کہ سلطان الہند پبلکشنز اجمیرشریف سے شائع ہوجائے۔ خواجہ معین الدین صاحب سے میرے ذاتی تعلقات بچپن ہی سے تھے‘ میرا آبائی وطن پرگی بلاشبہ ان کا آبائی وطن ہے اور وہ میرے پھوپھی ذات بھائی ابوالفضل سیدمحمود قادری کے رشتہ کے بھیتجہ تھے اور علمی ادبی کاموں سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے‘ جب جامعہ عثمانیہ میں طالب علمی کے دوران ہم جیسے طلبہ نے عثمانیہ یونیورسٹی کی روایت کو جاری رکھتے ہوئے دوبارہ کیمپس میں جلسہ سیرت النبیؐ کے انعقاد کا منصوبہ بنایا‘ تو انہوں نے اس منصوبہ میں مکمل تعاون کیا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم جیسے طالب علموں نے 1975ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی نگرانی میں جلسہ سیرت النبیؐ کا اہتمام کیا‘ جس میں انگریزی‘ اردو‘ تلگو‘ ہندی‘ مرہٹی اور کنڑی ہی نہیں‘ بلکہ تامل زبانوں کے اساتذہ نے سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے خیالات کا مظاہرہ کیا اور تحریری و تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والے طلباء اور طالبات کو انعامات سے نوازا گیا اور اس جلسہ سیرت النبیؐ کی پوری رپورٹ آل انڈیا ریڈیو سے پیش کی گئی کیونکہ اس وقت تک حیدرآباد میں ٹی وی پروگراموں کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ غرض سیدخواجہ معین الدین کی فطرت میں داخل تھا کہ وہ ہر ایجادی کام اور منفرد رویہ کو فروغ دینے والوں کا ساتھ دیتے اور ان کی حمایت کرکے کام کو آگے بڑھانے میں پیش پیش رہتے تھے۔ وقفہ وقفہ سے فون پر بات ہوتی تھی۔ انتقال سے چاردن پہلے رات میں 9بجے کے بعد فون کرکے اپنی بیماری کی تفصیلات بتائی اور میں نے بھی ان سے وعدہ کرلیا کہ شہر کے حالات سدھرنے کے بعد ملاقات کے لئے حاضر ہوجاؤں گا‘ لیکن کسے خبر تھی کہ فون کی ملاقات ہی آخری ملاقات ہوگی۔ چنانچہ علالت کے دکھ سہے بغیر 27؍مارچ رات کے 9بجے کے بعد انہوں نے آخری سانس لی اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان کے آبائی محلہ چنچل گوڑہ کی یکخانہ مسجد میں دوسرے دن نماز ظہر میں جنازہ کی نماز ادا کی گئی اور قریبی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ غرض کام کرنے والے ساتھیوں میں سے ایک ایک کرکے ہم سے جدا ہوتے جارہے ہیں اور افسوسناک صورتحال یہی ہے کہ جن باصلاحیت اشخاص کو دنیا سے رخصتی کا پروانہ مل رہا ہے‘ ان کے متبادل کے طور پر کسی باصلاحیت شخصیت کا وجود دکھائی نہیں دیتا۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ سیدخواجہ معین الدین کی جیسی صلاحیتوں کے حامل نعم البدل کو پیدا کردے‘ تاکہ ان کی رحلت سے صحافت‘ اردو ادب اور ترجمہ کی دنیا میں جوخلاء پیدا ہوا ہے‘ اس خلاء کو پر کرنے کے لئے سازگار ماحول پیدا ہوجائے۔ آ مین