انٹرنیٹ تک رسائی بنیادی حق، جموں و کشمیر میں پابندیوں پر نظرثانی کا حکم

,

   

اظہار خیال اور نظریات کی مخالفت کو کچلنے دفعہ 144 کا غیر معینہ مدت تک استعمال نامناسب، سپریم کورٹ بنچ کی رولنگ

نئی دہلی، 10 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز انٹرنیٹ تک رسائی کو آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت بنیادی حق قرار دیتے ہوئے جموں و کشمیر انتظامیہ کو اس مرکز کے زیرِ انتظام ریاست میں عائد پابندیوں کا ایک ہفتے کے اندر جائزہ لینے کے احکامات صادر کئے ۔جسٹس این وی رمن، جسٹس سبھاش ریڈی اور جسٹس بی آر گوائی کی بنچ نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی زیادہ تر شِقوں اور آرٹیکل 35 اے کو منسوخ کئے جانے کے بعد انٹرنیٹ سروس کی معطلی پر فوری طور پر جائزہ لینے کے احکامات صادر کئے ۔ بینچ کی جانب سے جسٹس رمن نے ‘کشمیر ٹائمز’ کی ایڈیٹر انورادھا بھسین اور کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد کی عرضیوں پر فیصلہ سناتے ہوئے جموں و کشمیر میں عائد کی گئی دیگر تمام پابندیوں کا ایک ہفتے کے اندر جائزہ لینے کے احکامات صادر کئے ۔عدالت نے سرکاری اور مقامی بلدیاتی اداروں کی ان ویب سائٹسوں کو بحال کرنے کی ہدایت جاری کی جہاں انٹرنیٹ کے غلط استعمال کا خدشہ کم ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے احکامات میں اسپتال اور تعلیمی اداروں سمیت ضروری خدمات فراہم کرنے والے تمام اداروں کی انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کی ہدایت دی ۔ بنچ نے اپنے احکامات میں کہا کہ انٹرنیٹ پر غیر معینہ مدت تک پابندی عائد کرنا ٹیلی کمیونیکیشن صابطوں کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ انہوں نے انٹرنیٹ کی دستیابی کو اظہار رائے کی آزادی کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر لمبے عرصے تک پابندی نہیں لگائی جا سکتی ۔

عدالت نے مرکزی کے زیر انتظام علاقہ کی انتظامیہ سے کہا کہ وہ ان تمام احکامات کو منظر عام پر لائے ، جن کے تحت کریمینل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 144 نافذ گئی تھی، تاکہ لوگ اس کے خلاف کورٹ جا سکیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ انٹرنیٹ سروس کی غیر معینہ مدت تک معطلی نا قابل قبول ہے ۔سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے تحت بار بار احکامات جاری کرنے سے اقتدار کا غلط استعمال ہوگا ۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو پابندیوں کے تمام احکامات کو شائع کرنا چاہئے اور کم پابندیوں کے اقدامات کو اپنانے کے لئے کے تناسب کے اصولوں پر عمل کرنا چاہئے ۔عدالت نے کہا کہ پابندیوں کے احکامات کے پیچھے کے سیاسی پہلو سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کی محدود فکر سکیورٹی اور لوگوں کی آزادی کے سلسلے میں ایک توازن تلاش کرنا ہے ۔ جسٹس رمن نے کہا‘‘ ہم صرف یہ یقین بنانے کے لئے یہاں ہیں کہ شہریوں کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں ۔ کشمیر میں بہت تشدد ہوا ہے ۔ ہم سکیورٹی کے مسئلہ کے ساتھ انسانی حقوق اور آزادی میں توازن پیدا کرنے کی پوری کوشش کریں گے ۔عدالت عظمی نے اس دوران جن اہم باتوں پر زور دیا ان میں آئین کے آرٹیکل 19 (1) (اے ) کے تحت بولنے اور اظہار رائے کی آزادی میں انٹرنیٹ کا حق شامل ہے۔