انڈیا سے بی جے پی کو بوکھلاہٹ

   

حسرتوں کے پھول جس میں کھل رہے ہیں روز و شب
رنج و غم کا ایک ایسا گلستاں رکھتا ہوں میں
جیسے جیسے ملک میںانتخابات کا موسم عروج پر آرہا ہے اور سیاسی سرگرمیوںمیں تیزی پیدا ہوگئی ہے اور عوام میں انتخابات پر تبادلہ خیال ہونے لگا ہے بی جے پی کی بوکھلاہٹ میںاضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ خاص طور پر یہ بوکھلاہٹ اس وقت سے بڑھ گئی ہے جب سے ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے ’ انڈیا ‘ اتحاد تشکیل دیا ہے ۔ بی جے پی ملک میں حب الوطنی اور قوم پرستی کی دہائی دیتی ہے اور یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں ہے ۔ حالانکہ ملک کا ہر شہری محب وطن ہے اور ملک کی حفاظت کیلئے اپنی زندگیاں تک قربان کرنے تیار رہتا ہے لیکن بی جے پی صرف اس لفظ کا استحصال کرتی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے انڈیا اتحاد پر جس طرح کا رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی اس نام کے تعلق سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے اور اسے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود اپنی شکست کے امکانات دکھائی دینے لگے ہیں۔ پہلے تو انڈیا اتحاد پر رد عمل میں ملک کے وزیر اعظم نے خود اس کو انڈین مجاہدین جیسی تنظیم سے تشبیہہ دینے کی کوشش کی تھی ۔ یہ کوشش الٹی پڑگئی اور حب الوطنی پر سوال کئے جانے لگے تو پھر اچانک ہی اس پر خاموشی چھا گئی اور اب اچانک بین الاقوامی سطح پر ملک کے نام کو انڈیا سے بدل کر بھارت کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں جی 20 چوٹی اجلاس ہونے والا ہے ۔ اس میں امریکی صدر جو بائیڈن ‘ وزیراعظم برطانیہ رشی سونک اور دوسرے عالمی قائدین شرکت کرنے والے ہیں۔ اس کانفرنس کیلئے صدر جمہوریہ ہند شریمتی دروپدی مرمو کی جانب سے عشائیہ کا دعوت نامہ جاری کیا گیا ہے ۔ عالمی قائدین اور دوسرے مندوبین اس میںشرکت کرینگے ۔ اس دعوت نامہ پر نام انڈیا کی جگہ بھارت تحریر کیا گیا ہے ۔ اس طرح یہ کوشش شروع ہوگئی کہ عالمی فورمس میں ملک کے نام کو انڈیا سے بدل کر بھارت کردیا جائے ۔ یہ محض اپوزیشن اتحاد ’ انڈیا ‘ سے لاحق خوف ہے ۔ یہ سب کچھ مرکز کی نریندر مودی حکومت اور بی جے پی کی بوکھلاہٹ ہے جو بالکل واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے ۔
جیسے ہی انڈیا اتحاد کی تشکیل عمل میںلائی گئی تھی یہ کہا گیا تھا کہ اس نام کے استعمال کا کسی کو بھی حق نہیں ہے ۔ اپوزیشن اتحاد کے نام کے خلاف الیکشن کمیشن سے شکایت کروانے کی بات بھی کہی گئی تھی ۔ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بھی دعوے کئے گئے تھے تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ امکانات سب دیکھنے اور اس کے نتائج کا اندازہ کرنے کے بعد اب باضابطہ طور پر ملک کے نام کو ہی تبدیل کردینے کی کوشش شروع کردی گئی ہے ۔ یہ سیاسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے ۔ ملک کے عوام میںلفظ انڈیا کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ پریشانی پارٹی کو لاحق ہوئی ہے ۔ اس سے قبل جب راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا شروع کی تھی اس وقت بھی اس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہوئی ۔ اس یاترا کو ملک کے عوام کی زبردست تائید و حمایت حاصل ہوئی ۔ ملک بھر میں راہول گاندھی کی مقبولیت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ۔ ان کے امیج کو بگاڑنے کی بی جے پی کی برسوں کی محنت پر چند ماہ کی یاترا نے پانی پھیر دیا تھا ۔ اب اپوزیشن اتحاد انڈیا کی تشکیل نے بی جے پی کو سیاسی بوکھلاہٹ کا شکار کردیا ہے ۔ اس اتحاد پر تنقید کرنے اور نشانہ بنانے میں بی جے پی کو مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے کافی سوچ سمجھ کر اپنے اتحاد کیلئے یہ نام رکھا تھا اور بی جے پی کی مشکل اسی نام سے شروع ہوگئی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے زیادہ اس نام سے بی جے پی کو پریشانی لاحق ہوئی ہے اور اس کا اظہار اب اس کے فیصلوں اور اقدامات سے ہونے لگا ہے ۔
سیاسی مستقبل کیلئے تشویش لاحق ہونا یا اس کو محفوظ کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہر جماعت کا حق ہے لیکن اس کیلئے ملک کے نام کو تبدیل کرنے جیسی کوششیں نہیں ہونی چاہئے ۔ انتخابات میں مقابلہ عام بات ہے ۔ جب مقابلہ ہوتا ہے تو جیت اور ہار بھی جمہوریت کا حصہ ہے ۔ کبھی کامیابی ہے تو کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے لیکن جس طرح سے بی جے پی نے ملک کے نام کو تبدیل کرنے کی کوشش کا آغاز کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ عروج پر پہونچ چکی ہے ۔ وہ اپنی شکست کے اندیشے محسوس کرنے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مثبت انداز میں کچھ سمجھ نہیں آر ہا ہے اور وہ منفی سوچ کے ستاھ کام کر رہی ہے ۔