اولاد کی دینی تربیت دارین میں کامیابی کی ضمانت

   

سید زبیر ھاشمی نظامی
اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے ہم کو اُمت محمدیہ میں ایمان و اسلام والی قوم بنایا۔ اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔اب ہر والدین کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت ہر اعتبار سے درست کرے۔ کیونکہ بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر اُنھیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے؛ اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔
بچپن کی تربیت نقش علی الحجر (پتھر پر نقش) کی طرح ہوتی ہے، بچپن میں اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبڑے ہونے کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بالغ ہونے کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبالغ ہونے کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں نے ابتدا سے ہی اسکی صحیح رہنمائی نہیں کی۔نیز اولاد کی اچھی اور دینی تربیت دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کی ضمانتہے،جب کہ نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبالِ جان ہوگی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔
لفظِ ”تربیت“ ایک بہت زیادہ وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے، اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت،خاندان کی تربیت،معاشرہ کی تربیت، پھر ان قسموں میں بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں۔ ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد وغرض عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے۔ اولاد کی تربیت بھی اُنھیں اقسام میں سے ایک اہم قسم ہے۔آسان انداز میں ”تربیت“ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ:”برے اخلاق وعادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق وعادات اور ایک صالح ،پاکیزہ ماحول سے تبدیل کرنے کا نام ”تربیت“ ہے“۔
تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: (۱)ظاہری تربیت،(۲)باطنی تربیت۔

ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول ،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی صلاحیت کی جانکاری اور بالغ ہونے کے بعد ان کے ذریعہ معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں۔ یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بےحد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں اُبھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ و مضبوط ہوں اور ساتھ ہی اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں بحسن خوبی پوری کرسکتے ہیں۔
قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
” قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ“
ترجمہ:”اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ
جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں“۔(التحریم:۶)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا کہ:”ان (اپنی ولاد )کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ“۔فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو شرعی فرائض اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لیے کوشش کرے۔اولاد کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث سے بھی ہوتا ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے:”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیے، اولاد کے کیا حقوق ہیں؟
آپ ﷺنے فرمایا: وہ یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے“۔
”یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ انسان جن کا ذمہ دارورکھوالا ہے، اُنھیں ضائع کردے، ان کی تربیت نہ کرے“۔(سنن بیہقی)
یہ بھی ضائع کرنا ہے کہ بچوں کو ایسے ہی چھوڑدینا کہ وہ بھٹکتے پھریں، صحیح راستہ سے ہٹ جائیں، ان کے عقائد واخلاق برباد ہوجائیں۔نیز اسلام کی نظر میں ناواقفیت کوئی عذر نہیں ہے، بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں جن امور کا جاننا ضروری ہے، اُس میں کوتاہی کرنا قیامت کی باز پرس سے نہیں بچا سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:”اپنی اولاد کوادب سکھلاوٴ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گاکہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟۔“ (شعب الإیمان للبیہقی)
بچہ نرم گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے، ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائے گی۔بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس پر اُسے شاباش اورکوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے جس سے بچہ خوش ہوجائے اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہوجائے۔
بچوں کو کسی غلط کام پر باربار اور مسلسل ٹوکنا اُن کی طبیعت میں غلط چیز راسخ ہونے سے حفاظت کا سبب بنتا ہے،جس سے اگر غفلت نہ برتی گئی تو اس میں شک نہیں کہ بچوں اور بچیوں میں غلط افکار (سوچ) پیدا ہونے سے پہلے مربی کو اس بات سے باخبر ہونا چاہیے کہ اس وقت بچہ کے لیے نصیحت فائدہ مند ہے یا سزا؟ تو جہاں جس قدر سختی اور نرمی کی ضرورت ہو اسی قدر کی جائے۔ بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔
تربیت میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہیے۔
چنانچہ غلطی پر تنبیہ کی ترتیب اسطرح ہونی چاہیے :
۱-سمجھانا ۲-ڈانٹ ڈپٹ کرنا
۳-مارکے علاوہ کوئی سزا دینا ۴-مارنا
۵- قطع تعلق کرنا۔
یعنی غلطی ہوجانے پر بچوں کی تربیت حکمت کے ساتھ کی جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اُسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحةً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے۔ امید ہے کہ اسطرح کے عمل سے بچوں میں سدھار آئے گا۔ اور دینی راہ پر چلنے میں آسانی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین