آصف سابع نواب میر عثمان علی خان اور اُن کے کارنامے

   

ڈاکٹر ایم اے نعیم کی غیرمعمولی انگریزی کتاب

محمدریاض احمد
آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر کو ان کی بے پناہ دولت، رعایا پروری، علم دوستی، بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ذات پات عوام کی بہبود اور سادگی کے لئے نہ صرف تلنگانہ، آندھراپردیش یا ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ ان کی دور اندیشی کفایت شعاری کے ساتھ ساتھ فراخدلی کے کافی قصے بھی مشہور ہیں۔ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے بارے میں بلاشک و شبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ متحدہ ہندوستان کی تقریباً 565 دیسی ریاستوں میں حیدرآباد دکن سب سے متمول، خوشحال ایسی ریاست تھی جہاں عوام کو تمام بنیادی سہولتیں حاصل تھیں۔ جس وقت متحدہ ہندوستان کے اکثر علاقے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے، حیدرآباد دکن روشنی سے منور تھا۔ آصفجاہی حکمرانوں نے حیدرآباد دکن کو دنیا کے چنندہ خوشحال علاقوں میں شامل کردیا تھا۔ بہرحال ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد سے تعلق رکھنے والے ممتاز مورخ ڈاکٹر ایم اے نعیم نے آصف سابع حضور نظام میر عثمان علی خاں بہادر کی حکمرانی اور ان کی نمایاں خدمات، کارناموں اور ملک کی ترقی میں ان کے حصہ کے بارے میں “H.E.H. MIR OSMAN ALI KHAN THE NIZAM VII OF HYDERABAD AND HIS CONTRIBUTIONS” نامی انگریزی کتاب تحریر کی ہے۔ 271 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو یقینا غیرمعمولی کہا جائے گا۔ گلیس پیپر پر شائع کتاب کا خوبصورت سرورق دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک خوبصورت و پُرکشش کیٹلاگ ہو۔ کتاب کی نفیس پرنٹنگ، ڈیزائن، رنگ کے انتخاب سے ڈاکٹر نعیم کے صاف ستھرے ذوق کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے قبل بھی ڈاکٹر نعیم نے اپنی تحقیق، وسیع مطالعہ اور دنیا کو حیدرآباد دکن، یہاں کی سلطنتوں اور حکمرانوں کے بارے میں واقف کروانے والی کم از کم 12 کتابیں لکھی ہیں جن میں دکن میں نظام الملک آصفجاہ (1720-1748) کے تحت مغل انتظامیہ، ایران اور دکن کی سلطنتوں کے سفارتی و تہذیبی تعلقات، گولکنڈہ کے قطب شاہوں کی تہذیب، تمدن اور حیدرآباد بیجاپور کی عادل شاہی تہذیب و تمدن، بہمنی اور دکن کے بریدی حکمراں، نظام کے شاہی محلات’ROCK ART OF ARABIA‘حیدرآباد میں ڈاک انتظامیہ کی تاریخ معہ نادر و نایاب تصاویر قابل ذکر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں ڈاکٹر نعیم نے بہت ہی اچھوتے انداز میں قارئین کو بتایا کہ نظام ششم نواب محبوب علی خاں کے انتقال کے بعد 29 اگسٹ 1911 ء کو نواب شہاب جنگ نے جو وزیر پولیس تھے محبوب علی پاشاہ کے فرزند میر عثمان علی خاں بہادر کے ساتویں نظام ہونے کا اعلان کیا اور 18 ستمبر 1911 ء کو آصف سابع کی رسم تاج پوشی انجام پائی۔ مصنف نے ایسا لگتا ہے کہ بڑی ہی تندہی و جستجو کے ساتھ تحقیق کے بعد قلم اُٹھایا ہے اور 1911 ء تا 1948 ء حضور نطام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی خدمات و کارناموں اور تعلیمی ترقی میں ان کے حصہ کو نمایاں طور پر پیش کیا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ 1914 ء میں حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں نے مملکت کے انتظامیہ کی راست ذمہ داری حاصل کرلی۔ مختلف محکموں میں اصلاحات کے نفاذ، تمام شعبوں میں اس وقت ہوئی ترقی، عوام کی بہبود کے لئے بنائے گئے نئے دستور، شہر حیدرآباد کو عصری بنانے کیلئے کئے گئے اقدامات، عوامی افادیت کی تعمیر کردہ فن تعمیر کی شاہکار بے شمار عمارتوں کے بارے میں بھی ڈاکٹر نعیم نے قارئین کو واقف کروایا ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی، عثمانیہ جنرل ہاسپٹل، یونانی اسپتال، ہائیکورٹ، نظام پیالس دہلی، معظم جاہی مارکٹ، کاچی گوڑہ ریلوے اسٹیشن جیسی عمارتوں کے بارے میں مصنف نے بہت خوب لکھا ہے۔ حضور نظام کے تعلیمی اصلاحات، ڈیمس و آبپاشی پراجکٹس کی تعمیر، ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشنس، ریلویز کے فروغ، روڈ ویز، ایرویز کے فروغ اور دکن ایرویز کے قیام کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ یہ تمام حضور نظام آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کے کارنامے ہیں۔ صنعتوں کے قیام، اس کے فروغ، حیدرآباد اسٹیٹ بینک کا قیام، اس دور کا مستحکم مالیاتی نظام، قبائیلی بہبود کے اقدامات، گونڈہ لمباڑہ وغیرہ کی بازآبادکاری، انھیں مفت تعلیم، مفت ہاسٹل اور طعام کی فراہم کردہ سہولتوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ دولت کے باوجود سیدھی سادی زندگی گزارنے والے حضور نظام کے بارے میں ڈاکٹر نعیم نے لکھا ہے کہ حضور نظام نے دنیا بھر کے اداروں کو عطیات دیئے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کو دیئے گئے لاکھوں پاؤنڈس کے عطیات کے بارے میں بھی قارئین کو معلومات فراہم کی ہیں۔ مسلم و ہندو مذہبی اداروں کی باقاعدگی سے مالی اعانت، منادر کے ملازمین کو دی جانے والی ماہانہ تنخواہوں، سقوط حیدرآباد کے بعد نئی حکومت کو کروڑہا روپئے مالیہ کی فراہمی، حکومت ہند کو 1965 ء میں چین کے ساتھ جنگ کے دوران دیئے گئے مثالی عطیہ کا تفصیلی ذکر کتاب میں کیا گیا ہے۔ کتاب میں ڈاکٹر ایم اے نعیم نے لکھا ہے کہ اُس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کی خواہش پر حضور نظام نے 5 ٹن سونا ڈیفنس فنڈ میں بطور عطیہ پیش کیا تھا۔ کتاب میں یہ بھی تحریر ہے کہ 1928 ء میں حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں نے ایرکنڈیشنڈ ٹورسٹ ریلوے کوچس متعارف کروائے تھے۔ ڈاکٹر نعیم کی اس خوبصورت تصنیف میں عثمانیہ یونیورسٹی، آرٹس کالج، عثمانیہ یونیورسٹی کی تقریب افتتاح، جلسہ تقسیم اسناد، چو محلہ پیالس، نظام پیالس نئی دہلی، عثمانیہ دواخانہ، قانون ساز اسمبلی، حیدرآباد پبلک اسکول، معظم جاہی مارکٹ، سٹی کالج، آصفیہ لائبریری، محبوبیہ اسکول، کاچی گوڑہ ریلوے اسٹیشن، عزاء خانہ زہرہ، یونانی اسپتال، ہائیکورٹ، جوبلی ہال، تاج پوشی کی تقریب، حضور نظام کی شادی کی نادر و نایاب تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں اور اُس دور کے مختلف نقشے بھی پیش کئے گئے۔ بہرحال ڈاکٹر ایم اے نعیم الدین کی اس کتاب کو اسپورتھی پرنٹرس ریڈہلز نے شائع کیا۔ کوہ نور بُک ڈسٹری بیوٹرس ایس آر این کالونی مانصاحب ٹینک حیدرآباد یا پھر مصنف ڈاکٹر ایم اے نعیم سے یہ کتاب حاصل کی جاسکتی ہے۔