اپنی پہچان مٹانے کو کہا جاتا ہے

,

   

7 یکساں سیول کوڈ … اتراکھنڈ سے تجربہ کا آغاز
7 مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری … حوصلے پست کرنے کی کوشش

رشیدالدین
رام مندر۔ دفعہ 370 اور یکساں سیول کوڈ بی جے پی ایجنڈہ میں شامل دو وعدوں کی تکمیل ہوچکی ہے اور اب یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں ہیں۔ بی جے پی کا یہ ایجنڈہ پارٹی کے قیام سے برقرار ہے لیکن اٹل بہاری واجپائی حکومت ایک بھی ایجنڈہ ایٹم کی تکمیل نہیں کرسکی۔ 2014 میں مرکز میں نریندر مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو حوصلہ ملا ۔ نریندر مودی نے ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کو برخواست کرتے ہوئے کشمیر کی ریاست کا درجہ ختم کردیا گیا۔ کشمیر دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا گیا۔ سپریم کورٹ سے بابری مسجد کی اراضی مندر کیلئے حاصل کی گئی اور رام مندر کا افتتاح انجام دیا گیا ۔ یکساں سیول کوڈ کے ملک بھر میں نفاذ کی راہ ہموار کرنے کیلئے اترا کھنڈ سے آغاز ہوا ہے۔ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ دراصل اقلیتوں کو دستور میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے لیکن بی جے پی کے پاس دستور اور قانون کا پاس و لحاظ کہاں ہے ۔ اترا کھنڈ سے تجربہ کا آغاز کیا گیا اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں توسیع دی جائے گی تاکہ چور دروازہ سے ملک بھر میں نفاذ کا راستہ ہموار ہو۔ اتراکھنڈ میں شادی ، طلاق ، جائیداد اور وراثت کے معاملات میں یکساں قانون کا نفاذ ہوگا ۔ مسلمانوں کیلئے مذکورہ مسائل خالص شریعت کے تابع ہیں۔ یکساں قانون کا مطلب شریعت کے برخلاف فیصلے ہوگا جو مسلمانوں کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں۔ یوں تو گوا میں یکساں سیول کوڈ پہلے سے نافذ ہے لیکن مودی دور حکومت میں اتراکھنڈ پہلی ریاست ہے جسے ہندوتوا کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یکساں سیول کوڈ سے قبائلی طبقات کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ یہ اقدام خود جانبداری کا ثبوت ہے۔ جب مسلمان اور دیگر طبقات پر یکساں قانون نافذ ہوسکتا ہے تو پھر ایس ٹی طبقات پر مہربانی کیوں ؟ دراصل قبائل اتراکھنڈ میں فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں، لہذا بی جے پی ان سے دشمنی نہیں کرسکتی۔ اتراکھنڈ کے قبائل مسلمانوں کے لئے ایک سبق ہیں۔ مٹھی بھر قبائل اپنے اتحاد سے حکومت کو جھکاسکتے ہیں لیکن مسلمانوں میں اختلاف اور انتشار کا فائدہ مسلم دشمن طاقتوں کو ہورہا ہے ۔ قبائل کو استثنیٰ سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ اصل نشانہ شریعت اسلامی ہے۔ مسلمانوں کے پاس شادی بیاہ، طلاق اور وراثت میں شریعت کے مطابق فیصلوں کے علاوہ کچھ اور باقی نہیں ہے ۔ بی جے پی اسے بھی چھین لینا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو ختم کرتے ہوئے ہندو راشٹر کی تشکیل آخری نشانہ ہے ۔ اتراکھنڈ کے بعد راجستھان میں تیاریاں شروع کردی گئیں۔ لوک سبھا چناؤ میں کامیابی کے بعد بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں یکساں سیول کوڈ نافذ کیا جائے گا تاکہ مسلمانوں کو ملک بھر میں نفاذ کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا جاسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان شریعت کے معاملہ میں سمجھوتہ کرلیں گے؟ ملک میں عبادتگاہوں کو چھیننے کا عمل شروع ہوچکا ہے اور کاشی و متھرا کی مساجد اور عیدگاہ کے بعد اب تاج محل پر بری نظریں ہیں۔ کھلے عام عبادت پر پابندی، حلال اشیاء کے استعمال پر اعتراض ، داڑھی اور ٹوپی سے نفرت، اذان کی آواز برداشت نہیں ، حتیٰ کہ دینی مدارس کا وجود کھٹک رہا ہے۔ ان حالات میں کیا مسلمانوں کو یکساں سیول کوڈ قبول کرلینا چاہئے ؟ ظاہر ہے کہ ہر کسی کا جواب نفی میں ہوگا لیکن اس کیلئے متحدہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے ۔ اگرچہ یہ قانون صرف اتراکھنڈ میں نافذ کیا گیا لیکن ملک کی تمام ریاستوں کے مسلمانوں کو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر دستور کی خلاف ورزی کو چیلنج کرنا ہوگا۔ قانونی جدوجہد سے ملک بھر کے مسلمانوںکی جانب سے حکومت وقت تک یہ پیام پہنچے گا کہ یکساں سیول کوڈ ہرگز قابل قبول نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی تمام سیاسی ، مذہبی قیادتوں ، جماعتوں ، تنظیموں اور اداروں کو تحفظ شریعت مہم کے طورپر عدالتوں سے رجوع ہونا چاہئے ۔ یہ ذمہ داری کسی ایک شخص یا صرف مسلم پرسنل لا بورڈ کی نہیں ہے۔ صرف اخباری بیانات سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ابتدائی مرحلہ میں نہیں روکا گیا تو ملک بھر میں نفاذ سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ مسلمان ایمان کے ساتھ دنیا میں آئے ہیں اور ایمان کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوں گے۔ مسلمانوں میں پھوٹ اور انتشار کیلئے حکومت بعض ایسے عناصر کا استعمال کرسکتی ہے جو یکساں سیول کوڈ کے حامی ہیں۔ ایسے عناصر کی آخرت میں رسوائی تو ہے لیکن دنیا میں بھی مسلمان انہیں سبق سکھائیں۔ مسلمانوں کو شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اتحاد کے مظاہرہ کو آج دہرانے کی ضرورت ہے۔ شاہ بانو کیس میں شریعت کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا لیکن مسلمانوں کے احتجاج کے آگے راجیو گاندھی حکومت کو جھکنا پڑا اور دستوری ترمیم کے ذریعہ شریعت کا تحفظ کیا گیا ۔ کاش شریعت کے تحفظ کیلئے مخلص اور دیانتدار قیادت میدان میں آئے۔
اتراکھنڈ ملک میں آر ایس ایس کی تجربہ گاہ بن چکی ہے جہاں مساجد اور مدارس پر بلڈوزر چلنے لگے ہیں۔ ہلدوانی میں مسلمانوں نے مسجد اور مدرسہ کے انہدام کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں پولیس کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ صورتحال پر قابو پانے کیلئے کرفیو نافذ کرتے ہوئے خلاف ورزی پر گولی مارنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ پولیس فائرنگ میں خواتین کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ اتراکھنڈ کے معاملہ میں خوش آئند بات یہ دیکھی گئی کہ مسلم خواتین نے مسجد اور مدرسہ کے تحفظ کے لئے خود کو احتجاج میں شامل کیا۔ جب خواتین کی غیرت ایمانی جاگ سکتی ہے تو پھر مرد حضرات کو بھی اسلامی شعائر کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے ۔ اتراکھنڈ میں جب سے بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے، مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ آر ایس ایس نے اتراکھنڈ کو تجربہ گاہ کے طورپر منتخب کیا ہے تاکہ یہاں سے مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کا آغازہوسکے۔ اترپردیش ، اتراکھنڈ ، راجستھان ، مدھیہ پردیش حتیٰ کہ نئی دہلی میں مساجد ، مدارس اور مسلمانوں کی املاک کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ یہ سازش دراصل لوک سبھا انتخابات میں مسلمانوں کو رائے دہی سے دور رکھنے کی کوشش ہے کیونکہ اگر مسلمانوں کے حوصلے پست کردیئے گئے تو وہ بی جے پی کے خلاف رائے دہی میں حصہ نہیں لیں گے۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلم اکثریتی علاقوں کی ناکہ بندی کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کی تیاریاں کرلی گئی ہے۔ حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کیلئے گزشتہ دنوں مفتی سلمان ازہری کو بھڑکاؤ بھاشن کے الزام کے تحت حراست میں لیا گیا۔ مفتی سلمان ازہری نے کوئی نفرت انگیز تقریر نہیں کی بلکہ انہوں نے صرف مسلمانوں کو مایوسی سے نکال کر امید کی طرف لے جانے اور حوصلوں کو بلند کرنے کی کوشش کی۔ جو مسلمان بھی ایمانی حرارت کا مظاہرہ کرے گا، اس کے ساتھ یہی سلوک ہوگا۔ جہاں تک نفرت انگیز تقاریر کا معاملہ ہے، جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے آلۂ کار کئی قائدین دن رات سماج میں زہر گھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مرکزی وزیر نے مسلمانوں کو گولی مارنے کا کھلے عام پیام دیا لیکن آج تک ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ مسلمانوں کو پاکستان منتقل کرنے اور اسلام اور شریعت کے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری ہے لیکن مفتی سلمان ازہری کی طرح ہندوتوا کے نمائندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ حالیہ عرصہ میں مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری مسلمانوں کے لئے درس عبرت ہے۔ تبدیلی مذہب کے نام پر مولانا کلیم صدیقی کو کئی ماہ تک جیل میں بند رکھا گیا۔ ان کا جرم بس یہی تھا کہ وہ غیر مسلموں میں اسلام کی تعلیمات عام کر رہے تھے۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر جب غیر مسلم آغوش اسلام میں آنے لگے تو مرکزی حکومت نے مولانا کلیم صدیقی کو ہراساں کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ کئی ماہ تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح مفتی سلمان ازہری نے ضمانت کی منظوری کے بعد یہ واضح کردیا کہ وہ مقدمات سے خوفزدہ ہوئے بغیر حق بیانی جاری رکھیں گے۔ مذہبی شخصیتوں کو نشانہ بنانے کے لئے مسلکی اختلافات کا سہارا لیا جارہا ہے۔ مودی اور ان کی حکومت کو ایسے افراد کی ضرورت تھی جو رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوں۔ مسلمانوں کو مزید کسی انتظار کے بغیر ہوش کے ناخن لینے ہوں گے ۔ قیادتوں کی رہنمائی کا انتظار کئے بغیر ہر شخص انفرادی طور پر اسلام اور شریعت کے تحفظ کے لئے کمربستہ ہوجائے، اسی میں ان کی فلاح اور کامیابی ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
اپنی پہچان مٹانے کو کہا جاتا ہے
بستیاں چھوڑکے جانے کو کہا جاتا ہے