’’اپنے بچوں کو ڈانس نہیں دین سکھائیے‘‘

   

محمد مصطفی علی سروری

جثیکا خان کی عمر گیارہ سال ہے اور وہ ساتویں جماعت کی اسٹوڈنٹ ہے۔ اعجاز الدین کی عمر بارہ سال ہے اور وہ آٹھویںجماعت کا اسٹوڈنٹ ہے۔ یہ دونوں بچے کولکتہ کے ایک اسکول میں پڑھتے ہیں۔ کولکتہ کے اخبار ٹیلی گراف کے مطابق یہ دونوں بچے گارڈن ریچ علاقے میں رہتے ہیں جو کہ کولکتہ کے قریب واقع ہے۔ این ڈی ٹی وی کی 4؍ ستمبر کی رپورٹ کے مطابق جثیکا خان کے والد تاج خان کار ڈرائیور ہیں اور جثیکا کی ماں ٹیلرنگ کا کام کرتی ہیں۔ یہ لوگ ایک کمرے کے گھر میں غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اعجاز الدین کے والدین کے متعلق رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ دونوں بھی یومیہ اجرت پر ایک گودام میں کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی غریبی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے گھروں میں پکوان کے لیے گیس کا چولہا تک نہیں ہے۔ یہ بچے نہ تو روزانہ دودھ پیتے ہیں اور نہ ہی ہارلکس۔ چاول، دال اور ترکاری کے علاوہ یہ لوگ اگر کچھ کھاتے ہیں تو وہ انڈہ ہے۔
قارئین کولکتہ کے ان غریب بچوں کو اس وقت دنیا بھر میں شہرت ملی جب دنیا کی ایک مشہور جمناسٹ رومانیہ کی نادیہ نے ان دو بچوں کی جمناسکٹک کرتے ہوئے 16 سکنڈ کی ویڈیو اپنے اکائونٹ کے ذریعہ شیئر کی۔ عالمی شہرت یافتہ نادیہ جنہوں نے اولمپک مقابلوں میں جمناسٹک کرتے ہوئے 5 گولڈ میڈل جیتے تھے ان کی جانب سے کولکتہ کے بچوں کو اسکول ڈریس میں اور اپنے کاندھوں پر بیاگ لگائے جمناسٹک کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھ کر پسندیدگی کا اظہار کرنا کافی تھا کہ لوگ ان بچوں کی تلاش میں نکل گئے اور میڈیا کے نمائندوں نے بالآخر ان کو کولکتہ کے سلم علاقے کی گلیوں میں ڈھونڈ نکالا۔ جثیکا خان اپنے والدین کی تین لڑکیوں میں منجھلی لڑکی ہے اور اعجاز الدین کے ساتھ مل کر یہ لوگ اپنے خالی وقت میں شیکھر رائو کے ہاں جایا کرتے ہیں۔ شیکھر رائو کون ہے، یہ بھی جان لیجیے۔ شیکھر دراصل ایک ڈانس سکھانے والا استاد ہے جو سلم علاقوں میں رہنے والے غریب بچوں کو Hip Hop ڈانس سکھاتا ہے۔ جثیکا خان اور اعجاز الدین دونوں غریب مسلم گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ڈانس سیکھنے کے لیے شیکھر کے ڈانس اسکول کو جاتے ہیں اور اسی ڈانس اسکول کے ٹیچر نے ان کی ایک ویڈیو بنائی جس میں یہ دونوں اسکول ڈریس میں اپنے کاندھوں پر بیاگ لگائے سڑک پر جمناسٹک کا دم بخود کردینے والا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ ویڈیو جلد ہی وائرل ہوجاتا ہے۔

NDTV کے نمائندہ خاتون مونی دیپا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے جثیکا خان کی والدہ ریشما کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ ہم اپنی لڑکیوں کو روزانہ دودھ پلا سکیں ۔ جثیکا کے والد اگر دودھ کی ایک پیاکٹ لا لیتے تو اسی سے تین بہنوں کو دودھ بانٹ کر پینا پڑتا ہے۔ انڈیا ٹوڈے ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ریشماں نے کہا کہ ’’اپنی لڑکیوں کو پالنے میں مجھے بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم لوگ بہت ہی غریب لوگ ہیں اور مسلمان ہیں۔ چونکہ میری تینوں اولادیں بھی لڑکیاں ہیں تو مجھے جہیز کا ٹینشن لگا ہوا ہے۔ لوگ بھی کہتے ہیں تم لڑکیوں کیسے کپڑے پہناتی ہو مگر اب میڈیا کے ذریعہ میری لڑکی کا بھلا ہوتا ہے تو میں اپنی بیٹی کو دیش کے نام کرنے تیار ہوں۔‘‘
قارئین! ایک لمحہ کے لیے غور کیجیے گا کہ ہندوستان کا غریب مسلمان اپنی لڑکیوں کے حوالے سے کس قدر فکر مند ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ غریب مسلمانوں میں دین اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کی کس قدر ضروت ہے۔ وہ اس لیے مسلمان صرف غریب ہی نہیں بلکہ دین سے بھی بہت دور ہوتا جارہا ہے۔ دیکھئے کہ غریب ہونے کے باوجود مسلمان اپنے بچوں کو Hip Hop ڈانس سکھانے کے لیے تیار ہے۔
اس ایک واقعہ سے مسئلہ کی سنگینی اگر سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو ایک اور خبر پڑھ لیجیے۔ تفصیلات کے مطابق 15؍ ستمبر 2019 کو ایک پندرہ سالہ لڑکی (جوکہ دہلی کے باواونا علاقے کی رہنے والی ہے) کو اس کی ماں اپنے ساتھ یہ کہہ کر لے جاتی ہے کہ وہ لوگ خالہ سے ملنے جارہے ہیں۔ لڑکی کی ماں اس کو لے کر دہلی کے ہی علاقے نظام الدین کی ہوٹل کو جاتی ہے جہاں پر لڑکی کی ماں ایک شخص جس کا نام شاہد بتلایا جاتا ہے بات کرتی ہے۔ اور پھر اپنی لڑکی کو کہتی ہے کہ اس کو شاہد کے ساتھ جانا ہوگا۔ شاہد اس 15 برس کی لڑکی کو ساتھ لے کر اپنے گھر جاتا ہے، جہاں پر لڑکی کو دلہن کا لباس پہننے کو کہا جاتا ہے، ساتھ ہی شاہد کے گھر میں اس لڑکی کو پتہ چلتا ہے کہ شاہد نے اس کی ماں کو ایک لاکھ روپیہ دے کر خریدا ہے۔ 15 سالہ لڑکی یہ ساری باتیں سن کر پریشان ہوجاتی ہے اور اگلے دن کسی طرح سے بھاگ کر دہلی کی ویمنس کمیشن کو شکایت کرتی ہے جہاں پر اس لڑکی کو قانونی مدد فراہم کرتے ہوئے پولیس میں باضابطہ شکایت درج کروائی جاتی ہے۔ NDTV کی 16؍ ستمبر 2019 کی رپورٹ کے مطابق 15 سالہ لڑکی نے پولیس کو یہ بھی بتلایا کہ اس کی ماں نے اپنے قرضوں کو چکانے کے لیے اس کے چھوٹے بھائی کو بھی بیچ چکی ہے۔ (بحوالہ این ڈی ٹی وی ڈاٹ کام : 16 ستمبر)
قرضوں میں مبتلا ماں اپنے قرضے کو چکانے کے لیے اپنے بچوں کو فروخت کر رہی ہے اور میں اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہوئے فخر محسوس کرتاہوں۔ لیکن میری زکوٰۃ ضرورت مند قرضداروں تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔ اس صورت حال پر مجھے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن میرے لیے یہ مشکل کام ہے۔ میں آسان راستہ تلاش کرنا چاہتا ہوں۔ میرے لیے کتنا آسان کام ہے کہ میں مسلمانوں میں دین سے دوری کو مورد الزام دوں لیکن مسلمانوں اور غریب مسلمانوں کو خاص کر دین کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے میں کچھ کرنے تیار نہیں ہوں۔ جہیز کے خوف سے ماں اپنی لڑکی کی شادی کے بجائے اس کو کسی کے ہاتھوں فروخت کرکے چین کی سانس لے رہی ہے اور میں ماں کو ہی بے حس، دین سے دور، جہالت کے اندھیرے میں رہنے والی خاتون قرار دے کر سکون کی نیند سو رہا ہوں۔

یا الٰہی !ہم مسلمانوں کو کیا ہوگیا اور ہم نے دین اسلام کو موضوع مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔ غریب ماں سرکاری مدد ملنے کی امید میں اپنی لڑکی کو دیش کے نام کرنے تیار ہے اور جن مسلمانوں کے ہاں مال و دولت ہے، انہوں نے اپنے بچوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے کس قدر آراستہ کیا ذرا یہ والی خبر بھی پڑھ لیجیے۔ اخبار’’دی نیو انڈین ایکسپریس‘‘ نے 31؍ اگست 2019 کو شہر حیدرآباد سے ایک خبر جاری کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق 30؍ اگست جمعہ کی شام فرزانہ (شناخت مخفی رکھنے نام بدل دیاگیا)۔ اپنی ایک سہیلی اور بیگم پیٹ کے رہنے والے کنال پانڈے کے ساتھ جوبلی ہلز کے ایک پاش پب کو جاتی ہے۔ اخبار نے کنال کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ہم لوگ جب بار میں جاکر بیٹھے تو وہاں کے ایک اسٹاف ممبر نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے ساتھ موجود لڑکی سے کہوں کہ وہ واش روم جاکر اپنے سر کا حجاب نکال دے۔‘‘ پب کے منیجر نے انڈین ایکسپریس کے نمائندے کو بتلایا کہ ان کے ہاں ایک خاتون حجاب پہن کر آئی تھی اور ان کی پالیسی ہے کہ وہ صرف مغربی لباس پہننے والوں کوداخلہ کی اجازت دیتے ہیں۔ برقعہ، حجاب اور ساڑی پہننے کی ان کے ہاں بالکل اجازت نہیں ہے۔
میں اس با حجاب خاتون کے بار میں جا کر بیٹھنے کے متعلق بالکل بھی بدگمانی نہیں کروں گا بلکہ میں تو یہ مانتا ہوں کہ وہ وہاں پر کسی اچھے کام کے سلسلے میں ہی گئی ہوں گی۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ مجھے پہلے اپنے اطراف و اکناف کے محلوں میں غریب ضرورت مند، اور قرض دار مسلمانوں کے پاس جاکر ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو دین کی صحیح تعلیمات سے واقف کروانے کے انتظامات کرنے کی ضرورت ہے اور مجھے بار سے باہر جو لوگ ہیں پہلے ان کا خیال کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن میں کسی کو کیا الزام دوں مجھے اپنی ذات سے اپنے دائرے اختیار میں اصلاح کا کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے اپنی ذات اور شخصیت میں موجود خامیوں کو ڈھونڈ کر پہلے ان کے سدھار کا کام کرنا ہوگا اور ان شاء اللہ جب ہم میں کا ہر فرد اپنی ذات سے یہ کام شروع کرے گا تو انقلاب یقینی ہے۔ حالات بھی بدلیں گے۔ ٭
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com