اپوزیشن، مودی کا غرور، کسانوں کی طرح توڑے

   

سیاست فیچر
حکومت مرکزی ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتی ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ہاں ایک بات ضرور ہیکہ جو لوگ مختلف چیزوں میں ملوث ہیں یا ان کی کچھ کمزوریاں ہوں تو وہ ڈر جاتے ہیں میں نے کہا کہ میں تو فقیر ہوں، تم میری تحقیقات کرو تب ہی وہ کہتے ہیں کہ نہیں صاحب ہماری مجبوری ہے۔ ان خیالات کا اظہار ملک کے ممتاز قانون داں و سینئر سیاستداں کپل سبل کو دی وائر کے لئے دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بی جے پی کے سابق لیڈر و سابق گورنر جموں و کشمیر ستیہ پال ملک نے کیا۔ اس سوال پر کہ آج کی جو سیاسی و دستوری صورتحال ہے اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ستیہ پال ملک کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات ایمرجنسی جیسے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ پارلیمنٹ میں 149 ارکان (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) کے ارکان کو معطل کردیا گیا۔ مودی اور ان کے کابینی رفقاء ارکان پارلیمان اور بی جے پی ارکان اسمبلی کچھ بھی کرلیں تو وہ ٹھیک ہوگا، اپوزیشن کریں تو انہیں معطل کردیا جاتا ہے۔ راجیہ سبھا کے نائب صدر نشین جگدیپ دھنکر کے اپوزیشن ارکان سے متعلق بیان کے بارے میں استفسار پر ستیہ پال ملک نے پرزور انداز میں کہا کہ وہ جاٹ کو نہیں جانتے یہ جو جگدیپ دھنکر ہیں ان کا کوئی کام جاٹ والا نہیں ہے، آپ کو بتادوں کہ جاٹوں کا ایک مقبول محاورہ ہے کہ جھکا ہوا جاٹ اور ٹوٹی ہوئی کاٹ کسی کام کی نہیں، کلدیپ دھنکر جب ملتا ہے تو ایسے ملتا ہے مکمل طور پر خود سپردگی کردیتا ہے، جاٹوں کے یہاں کسی بھی طرح کے ممکری اور مذاق کا برا نہیں مانا جاتا جہاں تک دھنکر کے اس الزام کا سوال ہے جس میں انہوں نے اپوزیشن ارکان پر جاٹوں کا مذاق اڑانے ان کی توہین نہیں کی بات کہی ہے اس میں دور دور تک جاٹ کی تو ہین نہیں ہے۔
کپبل سبل نے جب یہ سوال کیا کہ بی جے پی قائدین جب بھی کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو اتنی نشستیں حاصل ہوں گی ہمیں اتنے ووٹ آئیں گے تب ان لوگوں کی پیش قیاسی بالکل درست ثابت ہوتی ہے آخر کیسے؟ اس سوال پر ستیہ ملک نے بڑے سکون کے ساتھ کہا ’’دیکھئے میں آپ کو بتارہا ہوں جب تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا نظام ختم نہیں ہوگا بی جے پی اقتدار سے نہیں ہٹے گی۔ اس پر اپوزیشن جماعتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور کوئی ایکشن لینا ہوگا۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کا سوال ہے وہ بار بار یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ای وی ایم میں ہیر پھیر ہوتی ہے تو پھر ثابت کیجئے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے، الیکشن کمیشن کا مطالبہ غلط ہے جب ساری اپوزیشن جماعتیں ای وی ایم کی بجائے بیالٹ پیپر کے ذریعہ انتخابات کروانے کا مطالبہ کررہی ہیں تو الیکشن کمیشن بیالٹ پیپر کے ذریعہ انتخابات کیوں نہیں کرواتا (کپل سبل کے مطابق ووٹ کا جو حق ہے وہ جمہوریت کی بنیاد ہے اس بنیاد میں کوئی مشین فیصلہ کرے کہ ووٹ کس کے حق میں کیا ہے تو ایسے میں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ غیر دستوری ہے لیکن الیکشن کمیشن اور عدالت بھی یہ بات نہیں مانتی)۔ ستیہ پال ملک کا اس بارے میں کہنا ہیکہ الیکشن کمیشن حکومت کے دباؤ میں کام کررہا ہے۔ اپوزیشن کو چاہئے کہ انتخابات سے قبل اسے ایک مسئلہ بنائے۔ ستیہ پال ملک 28 اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈیا الائنس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اپوزیشن کا یہ اتحاد تو ٹھیک ہے لیکن اپوزیشن قائدین چھوٹی چھوٹی اور معمولی چیزوں میں پھنسے رہتے ہیں، نتیش کمار انڈیا کا کنوینر بننے میں لگا ہوا ہے اب بھی ملک میں بی جے پی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ آر ایس ایس لیڈر رام مادھو پر بھی ستیہ پال ملک نے اپنے دور گورنری (جموں و کشمیر کے گورنر کے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے) بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے تھے۔ اس بارے میں سوال پر ستیہ پال ملک کا جواب کچھ یوں تھا ’’رام مادھو ایک معاملہ میں ملوث تھے وہ دراصل انشورنس کا معاملہ تھا اس میں امبانی بھی تھے، رام مادھو اس کی پیروی کررہے تھے اور اُس میں 150 کروڑ روپے کھائے جانے والے تھے میں‘‘ نے اسے منظور نہیں کیا تب ایک دن صبح صبح رام مدھو راج بھون آئے سات بجے کا وقت ہو رہا تھا وہ بھی بناء نہائے دھوئے انہوں نے کہا کہ کیا اس کام کا کچھ کیا؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں کینسل کردیا کیونکہ وہ تو بالکل غلط تھا، تب رام مادھونے پوچھا کہ کیا وہ چھٹی (لیٹر) چلی گئی میں نے جواب دیا کہ ہاں وہ چھٹی چلی گئی ہے تو وہ پھر راج بھون سے روانہ ہوگئے، پھر دوبارہ نہیں آئے۔ ستیہ پال ملک سے کپل سبل نے مختلف سوالات کئے جس میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ 2017 میں آپ بی جے پی کسان مورچہ کے صدر تھے پھر کسانوں اور زرعی بلز کے مسئلہ پر وزیر اعظم کے ساتھ اختلافات کیسے پیدا ہوئے، سابق گورنر جموں و کشمیر کا جواب تھا کہ انہوں نے کسانوں کے احتجاج کے دوران دس دن تک سوچا غور کیا کہ عہدہ گورنر پر فائز ہیں، کسانوں کے حق میں آواز اٹھانا چاہئے یا نہیں پھر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ فائدہ نقصان کچھ نہیں ہوتا ہمارے لوگوں (کسانوں) کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے چونکہ وہ خود کسان خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے تہیہ کرلیا کہ اب انہیں بولنا چاہئے پھر وہ جیب میں استعفے رکھ کر وزیر اعظم نریندر مودی سے ملنے گئے، راستے میں گڈکری جی کو فون کردیا کہ وہ استعفے دینے جارہے ہیں تب گڈکری نے مشورہ دیا کہ استعفے تب دینا جب وہ استعفے مانگیں گے، ستیہ پال ملک بتاتے ہیں کہ میں نے گڈکری کی بات مانتے ہوئے وزیر اعظم کے پاس گیا وہ (مودی) بولے کیسے آئے ستیہ پال بھائی، میں نے کہا کہ ایسا ہے کہ چار ماہ سے کسان احتجاج کررہے ہیں اور آپ انہیں گندے کپڑے والے غریب آدمی سمجھ رہے ہیں حالانکہ ان کی چالیس چالیس گاؤں کی پنچایت میں بات مانی جاتی ہے، یہ اہم لوگ ہیں، ان سے آپ بات کیجئے خود نہ کریں تو کسی اور سے کروائیے، مودی نے جواب دیا چھوڑو! وہ خود (کسان) چلے جائیں گے کچھ نہیں ہوتا چلے جائیں گے، مودی نے یہاں تک کہا کہ کسان بناء بات کے اپنا احتجاج ختم کرکے چلے جائیں گے۔ پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ مودی کو کسانوں کے آگے جھکنا پڑا اور زرعی قوانین کو واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔