اپوزیشن ، مودی کا مقابلہ کیوں نہیں کرسکتی ؟

   

اشوتوش
عہدۂ صدرجمہوریہ کیلئے ہوئے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے امیدوار دروپدی مرمو نے 64% ووٹ حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار سابق وزیر فینانس و سابق بی جے پی لیڈر یشونت سنہا کو 36% ووٹ ملے لیکن ان نتائج کے بعد کچھ لوگ یہ کہنے کی ضرور ہمت کریں گے کہ ایک بااثر و طاقتور وزیراعظم نریندر مودی کی پرزور حمایت اور کوششوں کے باوجود دروپدی مرمو نے اپنے کئی پیشرو صدورجمہوریہ سے کم ووٹ حاصل کئے۔ یہاں تک کہ رام ناتھ کووند بھی دروپدی مرمو سے کہیں زیادہ ووٹ حاصل کرتے ہوئے ملک کے اس جلیل القدر عہدہ پر فائز ہوئے تھے جہاں تک اپوزیشن کا سوال ہے، وہ ایک فریب میں ایک طلسم میں ڈوبی ہوئی ہے اور وہ دروپدی مرمو کے کم ووٹ حاصل کرتے ہوئے کامیاب ہونے پر خوش ہونے کا حق بھی رکھتی ہے۔ تاہم ہندوستانی جمہوریت کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میںاس سے پہلے اپوزیشن جماعتیں ایسی منقسم اور ایسی منتشر کبھی نہیں تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ قافلہ ایک مخدوش ٹوٹا پھوٹا، بے سمت، بصیرت سے عاری اور قیادت سے محروم دکھائی دیتا ہے حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ کانگریس کئی دہوں تک اپنی زبردست موجودگی کا احساس دلاتی رہی۔ اس نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ قوم کو متحد کیا اور اسے ملک کی سب سے قدیم پارٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اگر ماضی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ کی تعداد کے لحاظ سے بہت کمزور تھی لیکن آج جس طرح وہ بے اثر دکھائی دیتی ہے، کبھی اتنی خطرناک حد تک بے اثر نہیں رہی۔ اپوزیشن کے غیرموثر ہونے اس کے پیچھے ہٹنے کا اس امر سے اظہار ہوتا ہے کہ ترنمول کانگریس کی سربراہ اور چیف منسٹر مغربی بنگال، ممتا بنرجی جنہوں نے عہدہ صدرجمہوریہ کیلئے اپوزیشن امیدوار کی حیثیت سے یشونت سنہا کا نام تجویز کیا تھا یہاں تک کہہ دیا کہ اگر انہیں پہلے یہ پتہ چلتا کہ دروپدی مرمو بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے کی صدارتی امیدوار ہوں گی تو وہ یشونت سنہا کے نام کی تجویز پیش کرتی اور نہ ان کی حمایت کرتی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ہوگا کہ یشونت سنہا، ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کے سینئر نائب صدر تھے۔ انہیں انتخابی مہم کے دوران عملاً ایک طرح سے چھوڑ دیا گیا تھا اور ممتا بنرجی نے ووٹ کی اپیل کرنے یشونت سنہا کو بنگال جانے نہیں دیا اور جب اپوزیشن نے عہدہ نائب صدرجمہوریہ کیلئے کانگریس لیڈر مارگریٹ الوا کا انتخاب کیا تب ممتا بنرجی نے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ مارگریٹ الوا کی تائید نہیں کریں گی، اس لئے کہ مارگریٹ الوا کو عہدہ نائب صدرجمہوریہ کیلئے مقابلہ میں اتارنے کے تعلق سے ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتوں کو مسلسل دو پارلیمانی انتخابات میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور اب تیسرے عام انتخابات صرف دو سال دور نہیں لیکن پہلے ہی یہ چرچے ہونے لگے ہیں کہ دو سال بعد یعنی 2024ء کے عام انتخابات بھی بی جے پی بہ آسانی جیت لے گی لیکن اس ضمن میں صرف ایک بحث اس بات کو لے کر کی جارہی ہے کہ آیا بی جے پی 2019ء کے عام انتخابات سے زیادہ نشستیں حاصل کرپائے گی؟
ایک طرف 2024ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کی امکانی کامیابی کی باتیں کی جارہی ہیں اور دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں جس طرح خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہیں، وہ حیران کن ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ اپوزیشن قائدین کو مرکزی ایجنسیوں بالخصوص انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی تحقیقات کا سامنا ہے اور ہر روز انہیں کسی نہ کسی نام پر تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ چشم کشا ہونا چاہئے تھا کیونکہ تین مختلف سیاسی جماعتوں کے تین ممتاز رہنما سے ای ڈی پوچھ تاچھ کررہی تھی جس کا سلسلہ شاید آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گا۔ سب سے پہلے اپوزیشن کی سرکردہ لیڈر سونیا گاندھی کو ای ڈی نے طلب کرتے ہوئے پوچھ تاچھ کی۔ انہیں ایک نہیں دو مرتبہ طلب کرتے ہوئے پوچھ تاچھ کی گئی۔ سونیا گاندھی سے قبل ان کے فرزند اور ویاناڈ کے رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی سے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے پانچ دن تک 50 گھنٹوں سے زیادہ پوچھ گچھ کی۔ دوسرے دہلی کے لیفٹننٹ گورنر ونئے کمار سکسینہ نے سی بی آئی سے کہا کہ وہ عام آدمی پارٹی حکومت کی شراب پالیسی اور اس میں عام آدمی پارٹی کے اہم ترین لیڈر منیش سسوڈیا کے رول کی تحقیقات کرے۔ منیش سسوڈیا ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہیں اور پارٹی میں وہ اروند کجریوال کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ اروند کجریوال کابینہ کے ایک سینئر وزیر ستیندر جین پہلے ہی سے حراست میں ہیں۔ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے اور اس بات کے کوئی امکانات نہیں کہ وہ ضمانت پر جلد سے جلد رہا ہوں گے۔ تیسرے اہم لیڈر جنہیں گرفتار کیا گیا، وہ ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے وزیر صنعت پارتھا چٹرجی ہیں۔ ای ڈی نے پارتھا چٹرجی کو مغربی بنگال میں ٹیچرس اسکام کے سلسلے میں گرفتار کیا۔ اگر دیکھا جائے تو کشمیر سے لے کر کنہیا کماری تک اپوزیشن قائدین ، مرکزی ایجنسیوں کی نظروں میں ہیں۔ پچھلے ماہ ہی مہاراشٹرا میں اُدھو ٹھاکرے کی زیرقیادت مہا وکاس اگھاڑی حکومت کو مرکزی حکومت کے حکم پر زوال سے دوچار کردیا گیا۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے، وہ کسی بھی طرح ناراضگی کی کوئی آواز سننا نہیں چاہتی، چاہے وہ ادارہ جاتی فریم ورک میں ہو یا غیرادارہ جاتی فریم ورک میں ہو۔ غیرسرکاری تنظیموں ، سیول سوسائٹیز، آرگنائزیشنس اور پریس (صحافت) پر حملہ اسی عمل کا ایک حصہ ہے۔ مرکزی ایجنسیوں کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانا بھی اسی طرح کے مقصد پر مبنی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈروں نے ابھی تک اس کھلے سچ کو تسلیم نہیں کیا ہے کہ صرف متحدہ اپوزیشن ہی مقابلہ کرسکتی ہے اور کامیابی حاصل کرسکتی ہے، ورنہ ہر جماعت آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مرجائے گی۔ قدیم کہاوت ہنوز سچ ہے کہ اتحاد زندگی، انتشار موت ہے یعنی اتحاد میں کسی بھی قسم کا فائدہ ہے،۔ اگر لوگ آپسی خلفشار کا شکار ہوتے ہیں تو اس سے ساری قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ اپوزیشن کو یہ اچھی طرح معلوم بھی ہوگا کہ بی جے پی کا متحدہ طور پر ہی مقابلہ کیا جاسکتا ہے، اس کے باوجود وہ (اپوزیشن) مودی کے خلاف متحدہ لڑائی کی کوشش کیوں نہیں کرتی؟ میرے خیال میں اس کی تین وجوہات ہیں۔
(1) اب یہ بات بالکل عیاں ہے کہ یہ اپوزیشن قائدین اپنے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود مودی سے ڈرتے ہیں اور پردہ کے پیچھے ان کے ساتھ صلح کی بات چیت میں مصروف ہیں۔ غیرمصدقہ رپورٹس کے مطابق ٹی ایم سی، عام آدمی پارٹی، این سی پی اور جے ایم ایم اور کچھ دیگر جماعتیں مرکزی حکومت سے رابطے میں ہیں۔ شرد پوار ماضی میں نریندر مودی اور امیت شاہ سے ملاقات کرچکے ہیں۔ مغربی بنگال کے دارجلنگ میں ممتا بنرجی کی جگدیپ دھنکر اور چیف منسٹر آسام ہیمنتا بسوا سرما سے ملاقات کی اطلاعات ہیں۔ گوا، اُتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کا حصہ لینا یا میدان میں اترنے کے منصوبہ کو مخالف بی جے پی ووٹوں کی تقسیم کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور یہی کہا جارہا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے سے بی جے پی کو مدد مل رہی ہے جبکہ مایاوتی کی بی ایس پی بھی شک کے دائرہ میں آگئی ہے۔ اس کے بارے میں بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بی ایس پی اپنی حرکتوں اور سرگرمیوں کے ذریعہ بی جے پی کی مدد کررہی ہے۔
(2) علاقائی سیاست نے مخصوص ریاستی سیاسی جماعتوں کو جنم دیا ہے۔ ان پارٹیوں کے قائدین میں قومی نقطہ نظر کا فقدان پایا جاتا ہے، وہ اپنی اپنی ریاستوں میں اپنے میدان کو بچانے میں مصروف ہیں جس کے نتیجہ میں وہ صرف اپنے مفادات کی فکر کرتے ہیں، کانگریس کے دور حکومت میں تین مرکزی دھارے تھے جن میں سوشلسٹ پارٹیاں، کمیونسٹ پارٹیاں اور جن سنگھ ، اُس کے مستقبل کا اوتار بی جے پی، ان کا سیاسی قد چھوٹا تھا لیکن ان کے پاس قومی ویژن اور قومی عزم و حوصلہ تھا۔ آج بی جے پی اقتدار میں ہے۔ کمیونسٹ جماعتیں روبہ زوال ہیں۔ سوشلسٹ پارٹیاں دَم توڑ چکی ہیں۔
(3) اپوزیشن جماعتوں میں قدآور لیڈروں کا فقدان پایا جاتا ہے جبکہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا، چھوٹی پارٹیوں میں رام منوہر لوہیا جئے پرکاش نارائن، مدھولماپا، چندرشیکھر، وی پی سنگھ، دیوی لال، این ٹی راما راؤ، رام کرشنا ہیگڈے، ہرکشن سنگھ سرجیت، جیوتی باسو، ای ایم ایس نمبودری پد، اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی ہوا کرتے تھے۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا تھا۔ وہ ایک دوسرے سے مسابقت کرنے والے تھے۔ دشمن نہیں تھے اور جمہوریت کا تحفظ ان کا مقصد ہوا کرتا تھا۔انہیں اندازہ تھا کہ جمہوریت کیلئے یک جماعتی اجارہ داری ٹھیک نہیں۔ آج ہمارا ملک بڑا ہے لیکن اس کے لیڈر چھوٹے ہیں اور ان کی انا ملک سے بڑی ہوگئی ہے۔ اب اپوزیشن کی جماعتیں اور قائدین ایک دوسرے سے دور ہیں، ایسے میں جمہوریت کیلئے کون لڑے گا۔ اپوزیشن بستر مرگ پر ہے، کسی ڈاکٹر یا تشخیص کی بناء مکمل صحت یابی کا امکان معدوم ہے۔