اپوزیشن میں انتشار کی سازشیں

   

چل بسے وہ دن کہ یاروں سے بھری تھی انجمن
ہائے افسوس ! آج وہ صورتِ آشنا ملتا نہیں
جیسے جیسے آئندہ پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی پیدا ہونے لگی ہے ۔ ہر جماعت کی اپنی تیاریاں ہیں۔ ہر جماعت اپنے اپنے منصوبوںکو قطعیت دینے میں مصروف ہیں اور چاہتی ہیںکہ زیادہ سے زیادہ کوشش کرتے ہوئے عوام کی تائید حاصل کی جائے تاکہ آئندہ انتخابات میںاضافی نشستوں کے ذریعہ اقتدار تک پہونچا جاسکے ۔ جہاںعلاقائی جماعتیں اپنے اتحاد کو قطعیت دینے میں مصروف ہیں اور اپنے اپنے حلقہ اثر کے مطابق منصوبے بنا رہی ہیں وہیں کانگریس پارٹی ہر ریاست میں الگ الگ جماعت کو ساتھ ملا کر اتحاد کرنے کی کوششیںکرتی دکھائی دے رہی ہے ۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو وہ چاہتی ہے کہ لگاتار تیسری معیاد کیلئے مرکز میںاسے حکومت تشکیل دینے کا موقع مل سکے ۔ اسی منصوبے کے تحت جہاں بی جے پی اپنی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہے وہیں پارٹی اپوزیشن کی صفوںمیںانتشار کو یقینی بنانے کے منصوبے پر بھی عمل کرتی نظر آ رہی ہے ۔ بی جے پی کو یہ احساس ہے کہ اسے آئندہ انتخابات میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے اپنے بل بوتے پر بہت زیادہ محنت کرنی ہوگی اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ اپوزیشن کی صفوں میںاتحاد نہ ہونے پائے ۔ اپوزیشن جتنا مستحکم اور طاقتور ہوگا بی جے پی کیلئے چیلنج اتنا ہی سخت ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح اپوزیشن کی صفوںمیںجتنا انتشار اور عدم استحکام ہوگا اتنی ہی بی جے پی کیلئے آئندہ انتخابات میں آسانی ہوگی ۔ کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں نے مل کر جو انڈیا اتحاد تشکیل دیا تھا اس کو بکھیرنے کی کوششیں بہت وقت سے ہو رہی تھیں اور بی جے پی کو امید ہے کہ وہ اس کوشش میںکامیاب ہوسکتی ہے ۔ جس طرح سے بہار کی سیاست میںالٹ پھیر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں وہ اس بات کا اشارہ ہیں کہ یہ سب کچھ اتحاد کی جماعتوں کے داخلی اختلافات ہی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ بیرونی کوششوں کی وجہ سے بھی ممکن ہوسکا ہے ۔ کسی اتحاد کو انتشار کا شکار کردینے کی بیرونی کوششیں بھی کسی سرکاری سرپرستی کی وجہ سے ہی کامیاب ہوسکتی ہیں۔ یہ کوششیں بی جے پی در پردہ ضرور کرتی نظر آرہی ہے اور شائد وہ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار کو اپنے اس جال میں پھانسنے میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوگئی ہے اور یہ سب کچھ بہت جلد منظر عام پر بھی آسکتا ہے ۔
بی جے پی پر مسلسل یہ الزامات عائد ہوتے رہے ہیں کہ وہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین کو دھمکانے اور ہراساں کرنے سے باز نہیں آئی ہے ۔ اپنے دس سال کے دور اقتدار میں بی جے پی نے مسلسل مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کو نشانہ بنانے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ کئی اپوزیشن قائدین کو مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ ہراساں کرتے ہوئے انہیں خاموش کردیا گیا ہے ۔ کئی قائدین ایسے ہیں جن کے خلاف تحقیقات کا آغاز تو ہوا تھا لیکن جیسے ہی ان قائدین نے بی جے پی میں یا تو شمولیت اختیار کرلی یا بی جے پی سے اتحاد کرلیا تو تحقیقات کو برفدان کی نذر کردیا گیا ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سارے مقدمات بند نہیں ہوئے ہیں بلکہ دبائے گئے ہیں تاکہ اگر یہ قائدین اور جماعتیں دوبارہ بی جے پی کے خلاف آواز اٹھائیں تو دوبارہ ان مقدمات کو استعمال کرتے ہوئے انہیں ہراساں کیا جاسکے ۔ بی جے پی مسلسل ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں اور مودی حکومت میںاپوزیشن کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیںر کھی گئی اور اس معاملے میںمرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کا بھرپور انداز میں بیجا استعمال کیا گیا ہے اور ان کے ذریعہ ہی سیاسی مفادات کی تکمیل کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ بہار میں بھی اسی طرح کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی کوئی تفصیل منظر عام پر نہیںآئی ہے لیکن یہ اندیشے ضرور ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ بی جے پی وہاں بھی اپوزیشن کی صفوںمیں انتشار پیدا کرنے کیلئے سرگرم رول ادا کر رہی ہے اور اس کے ذریعہ وہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔
اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بکھراو کو ممکنہ حد تک روکنے کی کوشش کریں۔ انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی سے تنہا مقابلہ کسی کے بھی حق میں فائدہ مند یا سودمند نہیں ہوسکتا ۔ اس کیلئے تمام جماعتوںکو مشترکہ پلیٹ فارم پر آنا ضروری ہے ۔ ایک دوسری کی مدد کے ذریعہ ہی بی جے پی کی کامیابیوں کا سلسلہ مزید دراز ہونے سے روکا جاسکتا ہے ۔ اپوزیشن قائدین کو اپنی سیاسی انا کو ترک کرتے ہوئے سیاسی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ وقتی طور پر کسی کو بھی کوئی قربانی دینی ہے تو اس سے گریز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ وسیع الذہنی اور وسیع القلبی کے ساتھ ہی یہ اتحاد مستحکم ہوسکتے ہیں اور باہمی اشتراک کے ذریعہ ہی بی جے پی کو شکست دینے کی کوشش آگے بڑھ سکتی ہے ۔
عالمی عدالت اور غزہ کی حالت
غزہ میں نہتے فلسطینیوںکی ہلاکت بلکہ نسل کشی اور قتل عام کا سلسلہ جاری ہے ۔ عالمی طاقتیں اس قتل عام اور نسلی صفائے پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور اسرائیل پر اس بات کیلئے زور نہیں دیا جا رہا ہے کہ وہ ان نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ بند کرے ۔ عالمی انصاف عدالت نے بھی اس معاملے میں دوہرے معیارات اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کو یہ حکم نہیں دیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی نافذ کرے ۔ عالمی عدالت نے صرف اسرائیل پر اس بات کیلئے زور دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکے ۔ عدالت نے مقدمہ چلاتے ہوئے اسرائیل کو پابند کرنے کے سلسلہ میں کوئی پیشرفت نہیں کی ہے اور نہ ہی جنگ بندی نافذ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حالات کو بہتر بنانے کی سمت کوئی قدم اٹھایاہے ۔ عالمی طاقتوں کا جہاںتک سوال ہے تو وہ اس معاملے میں دوہرے معیارات اختیار کئے ہوئے ہیں اور فلسطین میں جاری قتل عام انہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ دنیا کو اپنے دوہرے معیارات کو ترک کرتے ہوئے اسرائیل کیلئے حکم جاری کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ جنگ کو فوری روکنے اور نہتے فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کا سلسلہ فوری ترک کرے ۔