اپوزیشن کو دشمن سمجھنے کی نئی روش

   

تنقید کا مقصد مری تخریب نہیں ہے
جو عیب بتائے اُسے دشمن تو نہ سمجھو
اپوزیشن کو دشمن سمجھنے کی نئی روش
ملک میں انتخابات کا ماحول ہے ۔ ہر گوشے سے انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ برسر اقتدار جماعت ہو کہ اپوزیشن جماعتیں ہوں سبھی نے انتخابات کی تیاریوں کا اپنے طور پر آغاز کردیا ہے ۔ وزیر اعظم نریندرمودی پوری طرح انتخابی موڈ میں آگئے ہیں۔ کانگریس صدر راہول گاندھی بھی عملا اپنی پارٹی کی انتخابی مہم میں جٹ گئے ہیں۔ دیگر جماعتوں کی تیاریاں بھی اپنے طور پر شروع ہوچکی ہیں۔ ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ان کی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ سا چل پڑا ہے ۔ یہ سب کچھ روایتی طریقہ کار ہے تاہم ایک بات قدرے نئی دیکھنے میں آرہی ہے کہ برسر اقتدار جماعت اور خاص طور پر وزیر اعظم ملک کی اپوزیشن جماعتوں کو اپنی اور ملک کی دشمن قرار دینے میںلگے ہیں۔ وہ اپوزیشن کو اس کے ہر سوال پر قوم مخالف اور قوم دشمن قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جار ہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت سے یا پھر برسر اقتدار جماعت سے اور خاص طور پر وزیر اعظم سے سوال تک نہیںکرسکتیں۔ اگر کوئی حکومت سے سوال کرے تو وہ قوم دشمن قرار دیدیا جائیگا ۔ جہاں تک پلواما دہشت گردانہ حملے کاسوال ہے اور اس کے بعد ہندوستان کی جانب سے کئے گئے سرجیکل اسٹرائیکس کا سوال ہے اپوزیشن جماعتوں نے یا کسی اور نے بھی اس پر کوئی سوال نہیں کیا ہے بلکہ حکومت کو ہر اقدام پر تائید فراہم کی ہے ۔ دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس موقع پر سیاسی سرگرمیوں کو روک دیا گیا تھا ۔ سیاست کرنے سے گریز کیا گیا تھا۔ سرجیکل اسٹرائیکس کی تائید کی گئی تھی ۔ اس سے پہلے ہی حکومت کو ہر جوابی کارروائی کی تائید کرنے کا تیقن دیدیا گیا تھا ۔ اپوزیشن نے اس مسئلہ پر کوئی سیاست نہیں کی تھی لیکن خود حکومت ‘ برسر اقتدار جماعت اور ملک کے وزیر اعظم اس حساس اور قومی سلامتی کے مسئلہ پر سیاست کرنے میں جٹ گئے ہیں۔ ملک کی سلامتی کو انتخابی مہم کا حصہ بناتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ یہ سب کچھ خود برسر اقتدار جماعت کی جانب سے ہو رہا ہے اس کے باوجود نشانہ اپوزیشن کو بنایا جا رہا ہے ۔
حکومت اپنے عمل سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ کسی کو بھی اس سے سوال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ یہ جمہوری اصولوں کے مغائر ہے اور اس سے جمہوریت کو استحکام ملنے کی بجائے جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ ایک صحتمند جمہوریت کی یہ روایت ہے کہ حکومتیں اپنے کام کاج میں مصروف ہوتی ہیں اور جانے انجانے میں اگر اس کے کام کاج میں کوئی نقص ہوتا ہے یا خامی ہوتی ہے تو اپوزیشن جماعتیں اس کو اجاگر کرتی ہیں۔ حکومت سے اس کی کارکردگی پرسوال کیا جاتا ہے ۔ حکومتیں بھی جمہوری اصولوں کے تحت اپوزیشن کے اور ملک کے عوام کے سوال کے جواب دینے کی پابند ہوتی ہیںلیکن فی الحال ملک میں نریندرمودی حکومت اور بی جے پی خود کو ماورائے دستور اتھاریٹی سمجھنے لگے ہیں اور کسی کو سوال کرنے کی اجازت دینے کو ہی تیار نہیںہیں۔ پلواما دہشت گرد حملہ اور اس کے بعد کی سرجیکل اسٹرائیکس پر اپوزیشن نہیں بلکہ خود حکومت اور بی جے پی سیاست کرنے میںلگے ہیں اور اس کو روکنے کی کوشش کرنے یا اس پر سوال کرنے پر اپوزیشن کو قوم مخالف قرار دیا جا رہا ہے ۔ انہیں سیاسی مخالف کی بجائے دشمن کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن کو انتخابات میں ناکام کرنے کی کوشش ہر حکومت کا حق ہے لیکن عوامی زندگی میں انہیں حزب مخالف کی بجائے دشمن سمجھنے کی روایت شروع ہوگئی ہے جو ہندوستانی جمہوریت کیلئے صحتمند نہیں کہی جاسکتی۔
گذشتہ دنوں ایک تقریر میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نریندر مودی جیسے فرد آئیں گے اور جائیں گے لیکن ملک باقی رہیگا ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک باقی رہے گا اور وزیر اعظم کو سمجھنا چاہئے کہ اقتدار بھی مستقل نہیں ہوتا ۔ یہ کبھی حاصل ہوتا ہے تو کبھی شکست ہوجاتی ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن کو حزب مخالف ہی سمجھا جائے ۔ اسے دشمن نہ سمجھا جائے ۔یہ صحتمندانہ جمہوریت کے اصولوں کے مغائر ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے حکومت سے سوال کرنے کا ہر حق رکھتی ہیں اور حکومت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپوزیشن کے سوالات کے جواب دے ۔ اپوزیشن کو اپوزیشن یا حزب مخالف سمجھا جائے ۔اسے دشمن کی نظر سے نہ دیکھا جائے اور نہ اسے سوال کرنے کے حق سے محروم کیا جائے ۔ یہی ہماری جمہوریت کیلئے بہتر ہے ۔