اکثریتی قوم پرستی سے معقولیت پسندی کو خطرہ

   

رام پنیانی

ملک میں گذشتہ دس برسوں سے ہندو قوم پرست بی جے پی کا اقتدار ہے، 2014 میں اقتدار پر بی جے پی کے قابض ہونے کے ساتھ ہی شعبہ تعلیم میں ایسی تبدیلیاں روشناس کرائی گئیں جنہیں کسی بھی طرح معقول نہیں کہا جاسکتا۔ بی جے پی نے مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے ساتھ ہی شعبہ تعلیم میں پالیسی سازی کا ایسا انداز دانستہ طور پر فروغ دیا جس کی بنیاد ماضی کے ان پہلوؤں پر رکھی گئی جو عقلی دلائل اور منطق کی بجائے عقیدہ پر مبنی تھا۔ بی جے پی حکومت نے سائنسی اور عقلی دلیل کو اہمیت دینے کی بجائے عقیدہ کی بنیاد پر تعلیمی پالیسی کو فروغ دیا جس سے ملک میں معقولیت پسندوں کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، اس کی وجہ یہ ہے کہ معقولیت پسند ہمیشہ دلائل اور منطق کے ساتھ ساتھ سائنسی وجوہات کو اہمیت دیتے ہیں، ان کے پاس عقیدہ اور توہم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ وہ سائنسی سوچ و فکر کا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔ ہندوستان نے ماضی میں عقلی فکر کو پھلتے پھولتے یعنی فروغ پاتے دیکھا ہے۔ اس ضمن میں ہم چار واک کی مثال لے سکتے ہیں‘ چارواک نے معقولیت پسندی پر مبنی فلسفہ کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا جبکہ چاراٹ اور آریہ بھٹ نے پیشہ طب اور علم فلکیات میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کو بتادیں کہ چارواک کو لوکایتا بھی کہا جاتا ہے، یہ ہندوستانی مادیت کا ایک قدیم مکتب فکر ہے جسے ہندو روایات میں ملحدانہ مکتب فکر کی ایک مثال سمجھا جاتا ہے۔ چارواک براہِ راست اِدراک و فہم ، تجربہ پسندی اور مشروط قیاس کو علم کے مناسب ذرائع کے طور پر رکھتا ہے، وہ عقیدہ اور رسومات کو مسترد کرتا ہے۔ واضح رہے کہ BRIHASPATI جیسے فلسفی کو چارواک یا لوکایتا فلسفہ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح آریہ بھٹ ہندوستانی ریاضی کا بابا کہا جاتا ہے۔ ان تمام نے عقلی دلائل اور منطق سے جڑے پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی لیکن آج مودی حکومت میں بڑے فخریہ انداز میں ہندوستان میں سائینس، طب ، ریاضی کے ساتھ ساتھ علم فلکیات وغیرہ کی ترقی کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کی جاتی ہیں اور ماضی میں ہندوستان میں ہندوؤں کے بھگوان گنیش پر ہاتھیوں کا سر نصب کئے جانے کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں پلاسٹک سرجری کا پہلا واقعہ تھا یعنی گنیش کے جسم میں ہاتھی کا سر نصب کرکے ہندوستان نے ساری دنیا کو پلاسٹک سرجری کے بارے میں واقف کروایا۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ گنیش یا کرنا کا کان سے کا پیدا ہونا جنیاتی سائنس Genetic Science کی بہترین مثال ہے۔ اس معاملہ میں ہمارے ملک کے عقلمندوں نے شہری ہوا بازی کو بھی نہیں چھوڑا، اس معاملہ میں ہندو اساطیری داستانوں میں بیان کردہ پشپکسومان اور یہاں تک کہ مختلف سیاروں میں اس کے ذریعہ سفر کے قصے کہانیوں کو بڑے ہی فخریہ انداز میں پیش کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارا شاندار ماضی تھا۔
اس قسم کی چیزیں نہ صرف اب ہمارے ملک کے اسکولوں میں پڑھائی جارہی ہیں بلکہ حکومتیں چاہے وہ مرکز کی بی جے پی حکومت ہو یا بی جے پی زیر اقتدار ریاستی حکومتیں سائینس و ٹکنالوجی کی ترقی و تحقیق کیلئے عقیدہ سے جڑے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے فنڈز کا تعین بھی کررہی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ آئی آئی ٹی دہلی کے ساتھ ملکر حکومت PANCH GAVYA پر تحقیق کیلئے کثیر مالیہ فراہم کررہی ہے۔ جہاں تک پنچ گاویا کا سوال ہے یہ دراصل گائے سے حاصل کی جانے والی پانچ مصنوعات جیسے دودھ، دہی، گھی ( مسکہ )، پیشاب اور گوبر کا مرکب ہے اسے حکومت کی سرپرستی میں کام کررہے باوقار اداروں کے ماہرین مختلف امراض کا علاج بتارہے ہیں۔ گائے سے حاصل کی جانے والی مذکورہ 5 مصنوعات میں سب سے زیادہ گائے کے گوبر اور پیشاب کی خوبیوں اور اس کے طبی استعمال کی تشہیر کی جارہی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کئی قسم کے پیچیدہ امراض میں گائے کا پیشاب بہت فائدہ مند ہے۔ آپ کو بتادیں کہ اس حکومت کے 2014 میں اقتدار میں آنے سے پہلے اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس نے عقیدہ پر مبنی علوم کو فروغ دینے متعدد تنظیموں کا قیام عمل میں لایا اور اسکولی تعلیم کے ذریعہ عقیدہ پر مبنی علوم کو فروغ دینے کا آغاز کیا۔ اس سلسلہ میں دینا ناتھ بترا کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں‘ وہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم سکشھا بچاؤ ابھیان سمیتی اور آر ایس ایس سے ملحقہ سکشھا سنسکرتی اُٹھان نیاس (SSUN) کے کئی دہوں سے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تحریر کردہ 9 کتابوں کے گجراتی زبان میں ترجمے کرکے گجرات کے 42 ہزار اسکولوں میں متعارف کی گئیں۔ دینا ناتھ بترا کی کتابوں سے ہمیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ آخر ہمارے ملک میں فی الوقت کونسے نصاب اور علوم پر عمل آوری کی جارہی ہے ؟ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے بترا نے 9 کتابیں لکھی ہیں‘ ان کی کتابوں کا ایک مجموعہ TEJONMAYA BHARAT ہے جو ہمیں ڈاکٹر بالکرشنا گنپت ماتا پور کرکے بارے میں بتاتا ہے۔ انہوں نے مہا بھارت سے متاثر ہوکر اور اس سے حوصلہ پاکر تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق گندھاری کے پیٹ سے گوشت کا ایک بہت بڑا ٹکڑا باہر آیا تب ( رُشی )DWAI PAYAN VIYAS کو طلب کیا گیا۔ انہوں نے گوشت کے اس سخت ٹکڑے کو اچھی طرح دیکھا، اس کا معائنہ کیا اور پھر اسے مخصوص ادویات سے لیس ایک کولڈ ٹینک میں محفوظ کردیا، پھر انہوں نے گوشت کے اس ٹکڑے کو 100 حصوں میں تقسیم کرکے ان سو ٹکڑوں کو 100 مختلف ٹینکوں میں دو سال تک رکھ دیا، یہ ٹینکس گھی سے بھرے ہوئے تھے۔ دو سال بعد گوشت کے ان 100 ٹکڑوں سے 100کوروؤں کی پیدائش ہوئی۔ یہ پڑھتے ہوئے انہوں ( ماتا پورکار ) نے اس حقیقت کو جانا کہ اسٹیم سیل ٹکنالوجی ہماری تہذیب و تمدن کا ایک حصہ ہے۔( صفحہ نمبر 92-93) ماتا پورکار کے مطابق ہندوستانی رُشیوں نے اپنی یوگا ویدیہ استعمال کرتے ہوئے دیویا درشئی ( باطنی بصیرت ) حاصل کی اور اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ٹیلی ویژن کی ایجاد اسی زمانے میں ہوئی جس کا اندازہ مہا بھارت کے اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ SANJAYA ہستینا پور کے ایک محل میں بیٹھے اپنی باطنی قوت استعمال کرتے ہوئے مہا بھارت جنگ کا نابینا دھریتا راشٹرا کو راست ٹیلی کاسٹ دیتے ہیں( صفحہ 64) آج ہم جو جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ دیدک دور میں موٹر کار موجود تھی اور اُس دور میں موٹرکا کوANASHVA RATH کا نام دیا گیا تھا۔ عام طور پر ایک رتھ کو گھوڑے کھینچتے ہیں لیکن انشوا رتھ کا مطلب ایسی رتھ ہے جو بغیر گھوڑوں کے چلتی ہے یا یاترا رتھ ہے جو آج کی موٹر کار ہے۔ رگ ویدا میں اس کا حوالہ دیا گیا ہے(صفحہ نمبر 60 ) ۔ آر ایس ایس نے تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے ایک مشاورتی ادارہ بھی قائم کیا ہے جسے بھارتیہ سکھشا نیتی آیوگ (BSNA) کہا جاتا ہے جس کی پالیسیوں میں قومی تعلیمی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرتے ہوئے اسے ہندوستانی رنگ میں رنگنے کیلئے مودی حکومت کی رہنمائی کرنا ہے۔ اب تو انڈین کونسل آف ہیسٹاریکل ریسرچ، نیشنل کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ جیسی تنظیموں کے سربراہ بھی مقرر کردیئے گئے ہیں جن کی تعلیمی قابلیت‘ لیاقت و صلاحیتیں اپنے اپنے شعبوں میں کچھ خاص نہیں ہیں چونکہ وہ حکمراں جماعت کے نظریہ کی تائید و حمایت کرتے ہیں اس لئے انہیں مذکورہ اداروں کے سربراہوں کی حیثیت سے فائز کردیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ہم وائی سدرشن کا ذکر کرسکتے ہیں جنہیں ICHR کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے، انہیں ہماری عظیم اساطیری داستانوں رامائن اور مہا بھارت کو تاریخی طور پر ثابت کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ اس حکومت میں اگر دیکھا جائے تو معقولیت پسندی پر مبنی سوچ و فکر اور سائینٹفک طریقوں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مودی حکومت بابا رام دیو جیسے لوگوں کو بڑے پیمانے پر فروغ دے رہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کس طرح کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران بابا رام دیو کی پتنجلی کی تیار کردہ Coronil کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس دعویٰ میں کہا گیا تھا کہ Coronil سے کورونا کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک ایسا تاریخی فیصلہ دیا جس میں رام دیو کو انتباہ دیا گیا کہ وہ اپنی ادویات یا پراڈکٹس کے بارے میں نامعقول اشتہارات نہ دیں اور ان اشتہارات کے ذریعہ عوام کو گمراہ نہ کریں۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے رام دیو کو یہ بھی انتباہ دیا کہ وہ عصری نظام طب کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنے سے گریز کریں۔ ہمارے ملک میں معقولیت پسندی کی حوصلہ شکنی کیسے کی جارہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے انڈین سائنس کانگریس ایسے مقالہ جات بھی قبول کررہی ہے جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے بلکہ وہ اساطیری کہانیوں اور قصوں پر مبنی ہیں۔ چنانچہ ملک کے بے شمار ممتاز سائینسدانوں نے متحد ہوکر معقولیت پسندی کو اپنانے اور عقیدہ کی بنیاد پر سائنسی کارناموں کو جوڑنے جیسی غلط حرکتوں سے باز آجانے کا حکومت کو مشورہ دیا ہے۔ ان سائنسدانوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ سائنسی طریقہ کار اور سائینسی سوچ و فکر کو خطرہ میں ڈالنے کے عمل کو فوری روک دے ۔ ان لوگوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت غیر سائنسی نظریات کو فروغ دے رہی ہے اور قدیم ہندوستانی علوم کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہے۔ کووڈ۔19 کے دوران اس طرح کی بے شمار مثالیں منظرِ عام پر بھی آئی ہیں۔ سائنسدانوں نے زور دیا ہے کہ سائنسی سالمیت اور معقولیت پسندی کے فروغ کیلئے سائنسدانوں ، ماہرین تعلیم اور پالیسی سازوں پر مشتمل ایک متحدہ اتحاد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں توہم پرستی اور نامعقولیت پر مبنی رجحان کو روکا جاسکے۔