اگلے مرحلے میں غیر رسمی شعبہ کی ملازمتو ں سے ہندوستانی مسلمانوں کو نکالنے کے لئے عالمی وباء کو بہانہ بنایاجائے گا

,

   

مسلمانوں کو فی الحال جس چیز کا شدت کے ساتھ سامنا ہے وہ جان بوجھ وائرس کوکمیونٹی سے جوڑ کر ان کے معاشی حالات کو بگاڑا جارہا ہے
جو لوگ سنٹر فار اسٹڈی برائے ڈیولپنگ سوسائٹیزکے اسوسیٹ پروفیسر ہلال احمد کو جانتے ہیں‘ انہیں اپنے الفاظ کے بڑے احتیاط کے ساتھ استعمال کے لئے جانتے ہیں۔

مگر ان کا یہ ٹوئٹ ان کی ساکھ کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹوئٹ کچھ اس طرح کا تھا”اگر کرونا وائرس کا فرقہ وارانہ پروپگنڈہ اسی طرح جاری رہے گا‘ اسی طرح ہم ہندو پانی اور مسلمان پانی ہر ریلوے اسٹیشن کی ہر دوکان پر بہت جلد دیکھ سکتے ہیں“۔

یہ بیان مبالغہ کے طور پر سامنے آسکتا ہے مگر اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف سوشیل میڈیا اور ٹیلی وثیرن پر پروپگنڈہ کافی زہر آلود ہوگیاہے۔ کرونا وائرس کے اردگرد منڈلارہی بحث کے نتائج پہلے ہی ظاہر ہونے لگے ہیں۔

ہلدوانی میں ایک مسلم پھل فروش کو لوگوں کے گروپ نے دوکانیں بند کرنے پر مجبور کیا مگر ایسا ہندودوکانداروں کے ساتھ نہیں کیاگیا ہے۔

ایک تیزی کے ساتھ وائیرل ہورہے سوشیل میڈیا ویڈیو میں ایک ویلیفر اسوسیشن کے مکین اس بات پر رضامندی ظاہر کررہے ہیں کہ وہ مسلم وینڈرس اور ورکرس کو اپنی سوسائٹی میں آنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

منگلورو کے ایک گاؤں میں پوسٹر س لگائے گئے ہیں کہ”کرونا وائرس کی وباء پوری طرح ختم ہونے تک کوئی بھی مسلم کاروباری گاؤں میں داخل نہیں ہوگا۔ جس پر تمام ہندو کولیا کے دستخط ثبت ہے“۔

ارونا چل پردیش میں کئی مسلم ٹرک ڈرائیورس کی پیٹائی کی گئی ہے۔ ایسی کئی افواہیں مسلمانوں کے متعلق گشت کررہی ہیں مسلمانو ں سے نقدی تسلیم نہیں کی جارہی ہے

امتیازی سلوک کی کرونالوجی
پچھلے کچھ دنوں میں چند ہی معاملات سرخیوں میں ائے ہیں۔ ورکنگ کلاس مسلمانوں کو درپیش امتیازی سلوک کی خبریں بڑی مشکل ہیں‘ سوشیل میڈیا پر بھی دستاویزی شکل بہت کم ہے۔

اگر آپ ’کرونالوجی‘دیکھیں تو گائے کے نام پر مارپیٹ‘ سی اے اے‘ این آرسی ور دہلی فسادات کے بعد کرونا وائرس کے نام پر مسلمانوں کے خلاف حملے کے واقعات سامنے ائے ہیں۔

مسلمانوں کو فی الحال جس چیز کا شدت کے ساتھ سامنا ہے وہ جان بوجھ وائرس کوکمیونٹی سے جوڑ کر ان کے معاشی حالات کو بگاڑا جارہا ہے۔کئی مسلمانوں کا انحصار غیر رسمی شعبہ اور زندگی گذارنے کے لئے وہ سلف ایمپلائمنٹ پر منحصر ہیں۔

 

شہری علاقوں میں مسلمانوں کا سلف ایمپلائمنٹ تناسب 50فیصد ہے‘ جس کے مقابل 33فیصد ہندوؤں کا ہے‘ یہ اعداد وشمار این ایس ایس او (2009-10) کے مطابق ہیں۔یہ وہی ورکرس او روینڈرس ہیں جنھیں سوسائٹیوں کی جانب سے ان کے علاقوں میں آنے سے روکا جارہا ہے۔

صرف27فیصد مسلمان ہی ہیں جو تنخواہوں اور یومیہ اجرت پر کام کررہے ہیں‘ جس کے مقابلے 43فیصد ہندو اور 45فیصد عیسائی کام کررہے ہیں۔ شہری علاقوں میں محض30فیصد مسلمان ہی ہیں جو ”سینکنڈری یا اس سے زیادہ کی تعلیم حاصل کئے ہیں‘ جس کے مقابلہ 58فیصد عیسائی اور سکھ دونوں ہیں جبکہ ہندوؤں کا تناسب56فیصد ہے۔

یہاں تک مودی نے اپنے دوسری معیادکی شروعات مسلم طلبہ کو اسکالرشپ کے ذریعہ کی ہے‘ اس سے قبل انہوں نے تین طلاق‘ کشمیر او رسی اے اے جیسے قوانین لائے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت معاشی امتیاز کے معاملات سے بھی ہاتھ دھوئے گی‘ جس طرح انہوں نے ہجومی تشدد کے معاملات سے ہاتھ دھویا تھا۔ چاہئے یہ دونوں ان کے سیاسی منطق کا انجام ہی کیوں نہ ہوں