این آرسی کے خوف سے نفسیاتی امراض میں اضافہ

   

ایشلین متھیوز
خوف کی وجہ سے انسان کا ذہن بہتر انداز میں کام کرنا چھوڑدیتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق وہ فیصلے بھی نہیں لے پاتا ہے اور اس وقت ہندوستان کے درجنوں خاندان ایسے ہیں جوکہ این آر سی کی وجہ سے خوف میں مبتلاء ہیں اور ماہرین نفسیات نے انتباہ دیا ہے کہ اس خوف کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ ہورہا ہے ۔
این آر سی اور شہری ترمیمی بل کے خلاف جہاں ملک بھر میں احتجاج ہو رہے ہیں، وہیں اس کے خوف سے نفسیاتی امراض میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ان خیالات کا اظہار ممبئی کے ماہر نفسیات اور معالجین نے کیا ہے۔ جبکہ مسلم علاقوں میں سجنے والی رات جگنے کی محفل، چائے خانوں اور دیگر مقامات پر صرف این آر سی ہی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ مضافات کے کرلا علاقہ میں اپنا مطب چلانے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر ساجد خان نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے ان کے پاس ایسے مریضوں کی ایک بڑی تعداد آ ئی ہے جو این آر سی کے خوف سے ڈپریشن اور بلڈ پریشر کا شکار ہو رہے ہیں اور ایک ایسا انجانا خوف ان میں سمایا ہوا ہے جس کا علاج اس وقت ممکن ہے جب سرکاری سطح پر اس بات کی تصدیق نہیں ہو پاتی کہ این آر سی کے نام پر انہیں ملک سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ ڈاکٹر ساجد خان نے کہا کہ ان کے پاس این آر سی کو لیکر جتنے مریض اب تک آئے تھے وہ تمام کے تمام متوسط طبقات سے تعلق رکھتے تھے اور اکثریت کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ ہومیوپیتھک معالج ڈاکٹر انور امیر انصاری جو نفسیات دیکھ کر دوائیں تشخیص کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہومیو پیتھی کا نفسیات سے بڑا گہرا تعلق ہے اور یہی وجہ ہے کہ نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کیلئے ہومیوپیتھی کی دوائیں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار پانچ دنوں سے ان کے پاس نفسیاتی امراض کے جو مریض آ رہے ہیں ان پر این آر سی کا ایک خوف طاری ہے اور زیادہ تر افراد کی یہی شکایت ہے کہ اگر ہمیں ملک چھوڑنا پڑا تو ہمارا مستقبل تاریک ہو جائے گا اور ہم جائیں گے کہاں۔ڈاکٹر انور امیر نے کہا کہ گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے نے جب مہاراشٹر میں این آر سی نافذ کرنے سے انکار کر دیا تھا تو ایسے مریضوں کی حالت پہلے سے ابتر ہوتی نظر آرہی ہے اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ امید کی ایک کرن ان کے مرض کو ختم کرنے کے لئے جاگ اٹھی ہے۔
ایم ڈی کی طالبہ و مہاراشٹر ہیلتھ یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر ماریہ انصاری نے کہا کہ ان کے پاس بھی شہری ترمیمی بل اور این آر سی کے خوف کی وجہ سے مریضوں کی ایک بڑی تعداد آرہی ہے نیز ان کی کاؤنسلنگ کی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان میں یہ خوف اب بھی سمایا ہے کہ اگر این آر سی نافذ ہو گیا تو ان کا ملک میں مستقبل کیا ہو گا۔
مسلم محلوں اور علاقوں میں رات دن چاہے وہ چائے کی دوکان ہو یا پان کی دوکان ہو این آر سی کو لیکر ہی طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اسی درمیان ناگپاڑہ میں رہائش پذیر ایک شخص جو غیر تعلیم یافتہ ہے اس کا نام اسلم قریشی ہے لیکن صبح و شام وہ این آر سی کے تعلق سے بات کرتا ہے جس کے سبب اسے لوگ اسلم این آر سی کے نام سے پکارنے لگے ہیں۔
یہ صرف مہاراشٹرا کا حال ہے جبکہ ہندوستان کے دیگر علاقوں کے مناظر کچھ مختلف نہیں کیونکہ وہاں کی عوام این آر سی کی وجہ سے خوفزدہ ہے تو دوسری جانب اس متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج میں شرکت کے بعد پولیس اور انتظامیہ کا جو سوتیلا سلوک ہے اس نے بھی عوام میں مایوسی اور برہمی کو پروان چڑھایا ہے ۔ این آر سی کے خوف سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے جہاں عوام ماہرین نفسیات سے رجوع ہورہے ہیں وہیں مختلف علاقوں میں دستاویزات کی تیاری میں کئی گنا اضافہ ہواہے۔
شہریت ترمیم قانون نافذ ہونے کے بعد ایک طرف جہاں مسلسل احتجاج جاری ہیں تو دوسری طرف اس قانون پر صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ کئی شہروں میں میونسپلٹی دفتروں میں افراتفری دیکھنے کو مل رہی ہے، یہی حال ہاپوڑ کا ہے، جہاں بڑی تعداد میں لوگ پیدائش سرٹیفکٹ بنوانے کے لئے درخواست دے رہے ہیں، ان میں سے بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو 1950 سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔
ہاپوڑ نگر پالیکا کے ای او جے کے آنند سے جو تفصیلات حاصل ہوئی ہیں اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے اچانک بھیڑ امنڈ پڑی ہے، کچھ لوگ 1948 اور کچھ لوگ 1952 کے پیدائش سرٹیفکٹ بنوا رہے ہیں۔ آنند نے کہا ہم جن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ پرانی تاریخوں کی معلومات حاصل کرنے میں پریشانی ہو رہی ہے، پھر بھی ہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں یہ نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ یہ غیر متوقع ہجوم کیوں ہے، چند دنوں میں ہی 500 سے زیادہ لوگوں نے درخواست دی ہیں۔ پہلے یہ اعداد ہفتے میں صرف 5-6 کا ہی ہوتے تھے۔
نوجوانوں کے ساتھ ہی 1948 تک کے لوگ پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے درخواست دے رہے ہیں، یعنی ملک کی آزادی اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے لوگ بھی پیدائش سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے درخواست دے رہے ہیں۔ اتنے پرانے پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں حکام کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔
سی اے اے کے خلاف یوپی میں بھی بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں، کئی اضلاع میں انٹرنیٹ بند رکھنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لیا گیا، کئی اضلاع میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
20 دسمبر کے جمعہ کو شہریت قانون کے خلاف نماز جمعہ کے بعد جگہ جگہ احتجاج و مظاہرے ہوئے تھے اور تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے تھے اور اس وجہ سے دوسرے جمعہ کو یوگی حکومت کافی گھبرائی ہوئی نظر آ ئی ہے۔ احتیاطی قدم اٹھاتے ہوئے یو پی انتظامیہ نے ریاست کے 15 حساس شہروں میں انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔میڈیا ذرائع کے مطابق اتر پریش کے داالحکومت لکھنو، غازی آباد میرٹھ، علی گڑھ، سہارنپور، بلند شہر، بنور، مظفر نگر، شاملی، سنبھل، فیروز آباد، متھرا، آگرہ، کانپور اور سیتاپور میں انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئی ۔ میرٹھ اور علی گڑھ میں جمعرات کی شب 10 بجے سے انٹرنیٹ بند کرنے کا حکم صادر ہوا۔ مغربی اترپردیش کے حساس ترین علاقہ مظفر نگر ضلع میں 28 دسمبر تک انٹرنیٹ بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ ریاستی انتظامیہ نے دیگر سبھی اضلاع کے ضلع مجسٹریٹ کو یہ اجازت دے رکھی ہے کہ اگر معاملہ حساس نظر آتا ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا اندیشہ ہو تو احتیاط کے طور پر اپنے علاقے میں انٹرنیٹ کو بند کروا سکتے ہیں۔