این آر سی : سٹیزن شپ ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی

   

کرن تھاپر

مجھے آپ کی جانکاری سے واقفیت نہیں کہ جس بنیاد پر نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (NRC) کی آسام میں تشکیل ہوئی، وہ دانستہ اور کھلے طور پر اِس ملک کے قانون کی نافرمانی ہے، جسے پارلیمنٹ کے ایکٹ نے نافذ کیا ہے۔ مزید خراب بات ہے کہ یہ ظاہر طور پر سپریم کورٹ کی اجازت اور حفاظت کے ساتھ ہوا ہے۔ اور ہاں، میں نے اشتعال انگیز صفتوں کا استعمال کیا ہے کیونکہ میں آپ کی توجہ راغب کرنا اور آپ کی تشویش کو اُبھارنا چاہتا ہوں۔ برائے مہربانی آگے پڑھتے جائیں۔
این آر سی (NRC) کی ترتیب ان بنیادوں پر ہوئی کہ جو لوگ نصف شب 24 مارچ 1971ء سے قبل آسام میں موجود رہے ہوں (اور غالباً اس کا اشارہ تارکین وطن کی طرف ہے) وہ ہندوستان کے شہری سمجھے جائیں۔ یہ کلیدی اساسی تاریخ ہے۔ تاہم، سٹیزن شپ ایکٹ 1955ء کافی مختلف موقف قائم کرتا ہے۔ فقرہ 3(1)(a) بیان کرتا ہے کہ ’’ہر فرد جو ہندوستان میں 26 جنوری 1950ء کو یا اس کے بعد لیکن یکم جولائی 1987ء سے قبل پیدا ہو، وہ پیدائشی ہندوستانی شہری ہوگا؍ ہوگی۔ یہ فرق بہت اہم ہے۔ قانون شہریت کے تحت 30 جون 1987ء تک ہندوستان میں پیدائش والا کوئی بھی فرد اِس ملک کا شہری ہے۔ اس کے برعکس این آر سی اساسی نکتہ کو 16 سال پیچھے لے جاتا ہے۔ وہ ان لوگوں کی شہریت کو تسلیم نہیں کرتا ہے جو ہندوستان میں 25 مارچ 1971ء اور 30 جون 1987ء کے درمیان پیدا ہوئے ہیں۔

جیسا کہ پراتیک ہجیلا، این آر سی کوارڈنیٹر کا 10 جولائی 2019ء کی اپنی رپورٹ برائے سپریم کورٹ میں کہنا ہے: ’’خالصتاً پیدائش سے نہ کہ توارث کے ذریعہ شہریت این آر سی میں شمولیت کیلئے اہل نہیں ہے۔‘‘ یہ نکتہ ان بنیادوں پر ہے کہ اس طرح کے افراد کے والدین میں سے کوئی ایک ’’مشکوک ووٹر‘‘ ، ’’معلنہ بیرونی شہری‘‘ یا ایسا فرد ہوسکتا ہے ’’جس کا دعویٰ برائے شہریت کسی فارینرز ٹربیونل کے روبرو زیردوراں ہے‘‘۔ تاہم، یہ بنیادیں فقرہ 3(1)(a) کے اطلاق کیلئے قانونی استثنائی صورتیں نہیں ہیں۔ یہ واضح طور پر اور صاف صاف کہتا ہے کہ ’’ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر فرد‘‘ اور اس کا والدین یا اُن کی شہریت کے موقف سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ درحقیقت، سٹیزن شپ ایکٹ ایسے لوگوں کے زمروں کے تعلق سے کافی خصوصیت سے صراحت کرتا ہے جو پیدائش کے ذریعے شہریت سے خارج ہیں۔ یہ فقرہ 3(2)(a) اور (b) میں صراحت کیا گیا ہے اور مسلمہ سفارتکاروں کے بچوں تک محدود ہے، کیونکہ اُن کے والدین کو ’’مقدمات اور قانونی عمل سے چھوٹ‘‘ حاصل رہتی ہے، اور غیرملکی دشمنوں کے بچے جو ملک کے کسی حصے میں ایسے وقت پیدا ہوں جب وہ حصہ مقبوضہ ہو۔
پھر بھی عجیب بات ہے کہ سپریم کورٹ نے نہ صرف پراتیک کو شہریت کے تئیں اپنی من مانی تحدید کے ساتھ آگے بڑھنے کی اجازت دے دی بلکہ اُس کے یہ عمل کو تحفظ بھی فراہم کردیا۔ عدالت نے 13 اگست 2019ء کے اپنے حکم نامہ میں رولنگ دی کہ چونکہ سارا این آر سی عمل نصف شب 24 مارچ 1971ء بطور تاریخ کسوٹی کے ساتھ کیا گیا ہے، اس لئے ’’اب سٹیزن شپ ایکٹ کے دفعہ 3(1)(a) کی گنجائشوں کے بل بوتے پر تازہ عمل شروع کرنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا ہے ‘‘۔ حالانکہ چار روز قبل عدالت نے واضح تیقن دیا تھا کہ 30 جون 1987ء تک ہندوستان میں پیدائش والے لوگوں کو خارج نہیں رکھا جائے گا۔ تاہم، اپنے آرڈر میں اسے فراموش کردیا گیا۔ اس طرح سپریم کورٹ نے قانون کے تئیں اطاعت گزاری اور متاثرہ عوام کے حقوق پر انتظامی سہولت کو ترجیح دی ہے۔
لہٰذا، این آر سی کو مکمل کرنے اور غیرقانونی بیرونی شہریوں کی شناخت کی جلدی میں ہم نے جان بوجھ کر ایسا طریقہ کار منتخب کیا ہے جو ہندوستان کے قانونی شہریوں کو غیرقانونی تارکین وطن میں تبدیل کردے گا۔ کیا یہ گہری تشویش کا معاملہ نہیں ہے؟ سپریم کورٹ نے اپنے 13 اگست کے حکمنامہ میں معاملے سے جس طرح نمٹا ہے وہ محض ناکافی نہیں بلکہ تکلیف دہ ہے۔ اس صورتحال کو جو چیز مزید ناقابل تشریح بناتی ہے وہ صحافت اور اپوزیشن ہیں جو یا تو اس تمام تبدیلی سے لاعلم ہیں یا اس پر غیرمضطرب ہیں۔ اُن کیلئے صحیح معنوں میں نادانی ہی شادمانی ہے۔ اور اب کیا آپ سمجھ سکتے ہو کہ کیوں میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں اور جواب کیلئے جھنجھوڑ رہا ہوں؟ ہر چیز سے بڑھ کر این آر سی کو آگے بڑھانا جو تشویشناک اور قابل اعتراض ہے، بالکلیہ مختلف معاملہ ہے۔ اگر خرابی دور کرنے کی کوئی سعی نہ ہوئی تو قانون کی حکمرانی میں ہمارا ایقان متزلزل ہوسکتا ہے۔٭
karanthapar@itvindia.net