این آر سی کا نشانہ بنگال مگر قومی ماحول کشیدہ!

   

= امیت شاہ کا سیاسی کریئر ہندو۔ مسلم تقسیم سے پُر
= وزیراعظم کا ’کپڑوں سے شناخت‘ سے زیادہ فرقہ وارانہ تبصرہ کیا ہوگا؟
= ممتا بنرجی اپوزیشن میں مودی حکومت سے ٹکرانے والی واحد لیڈر

راج دیپ سردیسائی
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ہمیشہ اپنی اکثریتی شناخت کو فخر کے طور پر اُجاگر کیا ہے۔ شہر احمدآباد کے اسمبلی حلقہ سرکھیج جہاں بڑی تعداد میں ہندو اور مسلم آبادی غیرمسلمہ ’’سرحد‘‘ کے ذریعے منقسم ہے، وہاں سے گجرات ایم ایل اے کی حیثیت سے شاہ نے کبھی اس تاثر کو رد نہیں کیا کہ ان کو اس اسمبلی حلقہ میں بنیادی طور پر گجراتی ہندو ووٹروں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ میری کتاب 2019: How Modi won India کیلئے ریسرچ کے دوران گاندھی نگر میں مقیم سینئر جرنلسٹ راجیو شاہ کا ایک آرٹیکل میری نظروں سے گزرا۔ صحافی موصوف کا دعویٰ ہے کہ فسادات 2002ء کے چند ہفتوں بعد جب انھوں نے امیت شاہ کو سرکھیج علاقہ میں کشیدگی سے واقف کرایا، نزاع پسند سیاستدان نے فوری جواب دیا: ’’تم کیوں اتنے فکرمند ہو، وہاں کچھ نہیں ہوگا جہاں تم رہتے ہو، جو کچھ تشدد ہورہا ہے، وہ صرف ’سرحد‘ کی ’دوسری طرف‘ ہوگا!‘‘ شاہ کی صاف طور پر سیاسی غلطی کو ووٹر نے گویا درست قرار دیا۔ پھر وہ کبھی اپنے گڑھ سے کوئی الیکشن نہیں ہارے۔
سترہ سال بعد شاہ کا سیاسی قد ڈرامائی انداز میں بڑھ چکا ہے، لیکن وہ بدستور اپنے کلیدی افکار کے تئیں اپنے عہد پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) پر مباحث کے دوران جب مجوزہ قانون کی پوشیدہ متعصبانہ نوعیت کے تعلق سے سوال اٹھائے گئے، تب بھی وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ جہاں انھوں نے واضح کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، وہ بار بار زور دیتے رہے کہ کسی مسلم تارک وطن (گھس پیٹیا) اور کوئی ہندو پناہ گزین (شرنارتھی) کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ یہ ہندوتوا سے متاثر ساورکری نقطہ نظر کا حصہ ہے، جو ثقافتی اور تہذیبی اصطلاحوں میں ہندوستان یا بھارت کو بنیادی طور پر ہندوؤں کا مادرِ وطن سمجھتا ہے۔
ترمیم شدہ قانون شہریت (سی اے اے) کے ساتھ کل ہند سطح پر نیشنل رجسٹر فار سٹیزنس یا این آر سی (جسے بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر آسام ہمانتا بسوا سرما ترکیبی پیاکیج کہتے ہیں) کو جوڑ کر دیکھیں تو شہریت اور شناخت پر مبنی سیاست کے درمیان ربط زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔ اسی سے عام مسلم کے ذہن میں خوف کی وضاحت بھی ہوسکتی ہے کہ نیا قانون عین ممکن ہے انھیں حق رائے دہی سے محروم کردے گا۔ احتجاجیوں میں سے بعض نے سی اے اے کی باریک باتوں کو تاڑ لیا ہے، اور آل انڈیا این آر سی تو ہنوز قیاسی مرحلے میں ہے، لیکن جس طرح کا سیاسی پیام بار بار دیا جارہا ہے اُس کی وجہ سے بنیادی سطح پر انتشار کا اُبھراؤ لازمی نتیجہ ہے۔
سی اے اے۔ این آر سی کی مہم کا پس منظر بھی اہم ہے۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کردیا گیا، ایودھیا میں متنازع اراضی کی ملکیت سپریم کورٹ حکمنامہ نے رام جنم بھومی نیاس کو عطا کردی، اور تین طلاق کو مجرمانہ فعل قرار دینے والا قانون نافذ العمل کیا گیا۔ عام مسلمانوں میں خوف کا احساس جانبدار مملکتی نظام کے تئیں غم و غصہ اور عداوت سے عیاں ہے، اس جوش کو آسانی سے بھڑکایا جاسکتا ہے۔
پھر چاہے جامعہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) ہو یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)؛ سیلم پور ہو یا ہوڑہ؛ کئی اقلیتی غلبہ والے علاقوں میں احتجاجوں نے سیاسی پروپگنڈہ مشین کو تقویت پہنچانے کا کام ہی کیا ہے، جو انتخابی فائدوں کیلئے ہندو۔ مسلم تقسیم کو بھڑکاتے ہوئے پھلتی پھولتی ہے۔وزیراعظم نریندر مودی کی سی اے اے پر پارلیمانی مباحث کے دوران غیرحاضری بھلے ہی نمایاں طور پر محسوس کی گئی، لیکن جھارکھنڈ میں انتخابی مہم پر وہ اس بارے میں کافی بے باکانہ موڈ میں دکھائی دیئے۔ مثال کے طور پر ڈمکا کی انتخابی ریلی کے دوران مودی کے متنازع ریمارکس سنئے: ’’جو لوگ املاک کو آگ لگا رہے ہیں ٹی وی پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کی شناخت (تو) ان کے کپڑوں سے کرلی جاسکتی ہے۔‘‘ الیکشن کے موقع پر مخصوص طبقہ کو سیاسی پیام دینے کی آیا اس سے زیادہ اشتعال انگیز کوئی مثال ہوسکتی ہے؟
دو قسم کا فہم بہ یک وقت سمجھا جارہا ہے۔ پہلا یہ کہ مسلمان تقسیم پسند سیاسی ایجنڈے کا شکار ہیں جہاں اقتدار کی طاقت کو مخصوص کمیونٹی کو لگاتار نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ دہلی میں جے ایم آئی کیمپس کے اندرون پولیس کا ظالمانہ حملہ ایک اور یاددہانی ہے کہ کس طرح مسلم غلبہ والے کشیدہ پڑوس میں خاکی لباس والے ناعاقبت اندیش حرکتیں کرسکتے ہیں؟ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کو بے مملکت کٹر اسلام پسند کے طور پر دیکھا جائے، جو لا اینڈ آرڈر کیلئے خطرہ ہیں۔ بسوں کو جلانے اور ریلوے ٹریکس کو نقصان پہنچانے کی جھلکیاں بار بار پیش کرتے ہوئے مخصوص کمیونٹی کو سکیورٹی کیلئے جوکھم قرار دیا جاتا ہے۔ دونوں نوعیت کے خیالات یقینی بناتے ہیں کہ فرقہ وارانہ ’گھڑے‘ میں اُبال برقرار رہے۔
کینہ پرور اور انتشار پسند مباحث میں یہ حقیقت کہیں کھوگئی کہ سی اے اے۔ این آر سی پلان درحقیقت شمال مشرق کی نازک نسلی شناخت پر مبنی سیاست سے جڑا ہے، جہاں غیرقانونی سرحد پار نقل مکانی طویل عرصہ سے حساس سیاسی مسئلہ رہا ہے۔ آسام میں متواتر احتجاجوں کو دہلی میں تشدد کے مقابل کافی کم نیوز کوریج ایسے طرزعمل کا عکاس ہے جس میں شمال مشرق ناکام ہوجاتا ہے کیونکہ وہ بدستور قومی شعور کی بیرونی حد پر ہے۔
سچائی یہ ہے کہ سی اے اے۔ این آر سی کی ترکیب 1985ء آسام معاہدہ کی صریح خلاف ورزی ہے، جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تخصیص کئے بغیر ’’تمام‘‘ ایمگرنٹس کیلئے 1971ء کا سالِ حد مقرر کیا ہے۔ نئی قانون سازی محض بنگالی بولنے والے ہندو ووٹر کو راغب کرنے کیلئے ہے جو آسام اور پڑوسی بنگال دونوں جگہ ہیں۔ تاہم، بی جے پی نے ایسی راہ اختیار کی ہے جو طویل عرصہ سے دبے نسلی جھگڑے کو خطرناک انداز میں فرقہ وارانہ رنگ دینے کا موجب بن سکتی ہے۔ آسام اور ویسٹ بنگال میں اپریل؍ مئی 2021ء میں انتخابات ہوں گے۔ چنانچہ ملک کے بقیہ حصے میں جل رہی آگ محض اُس تلخ سیاسی کھیل کا شاخسانہ ہے جو بنگال 2021ء کو اگلی بڑی لڑائی مانتا ہے جسے بہرحال جیتنا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے برسوں قبل گجرات میں سرکھیج کا الیکشن جیتنے کا معاملہ ہوا کرتا تھا۔
اختتامی تبصرہ
چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی اپوزیشن کی واحد سیاستدان ہیں جنھوں نے مودی حکومت کی ’’سی اے اے۔ این آر سی چال‘‘ پر مضبوط اختلافی نکات پیش کئے ہیں۔ اپنے احتجاجوں میں این آر سی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اور اس انتباہ کے ساتھ کہ شہریت کے دستاویزات حاصل کرنے میں غریب بنگالی کو جدوجہد کرنا پڑے گا، ممتا بنرجی نے اس بحث کو نیا رُخ دیا ہے: بنگالی ذیلی قوم پرستی بمقابلہ ہندوتوا قوم پرستی، غریب بمقابلہ امیر؛ نہ کہ ہندو بمقابلہ مسلم۔
rajdeepsardesai52@gmail.com