ایک چراغ بجھ گیا …مولانا ڈاکٹر سید عبدالرحمن طاہر القادری نقشبندیؒ

   

ڈاکٹر حبیبی

نظام شمسی کے تحت اس شام بھی آفتاب غروب ہوا۔ یہ شام شب عاشورہ تھی، لیکن نقد وقت کو دیکھئے کہ اس کے بعد نظام قضاء و بدر کی تعمیل میں ایک اور آفتاب غروب ہوا۔ ایک اجل مسمیٰ کی غمناک اطلاع کے ساتھ کہ مولانا ڈاکٹر سید عبدالرحمن طاہر قادری نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ہے اور اصل الاصول سے وابستہ ہوگئے ہیں، ان ہی کا شعر ہے:
دنیا کی حسرت سے مجھے بے نیاز کردے
میرے دل میں صرف تیرا، تیرا ہی درد بھردے
یقیناً! ان سے تقرب کے باعث یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی کبھی بھی دنیوی حسرتیں نہیں تھیں، وہ ہر حسرت سے بے نیاز ہوچکے تھے اور دل درد سے بھرا ہوا تھا۔ بتلایئے! اس ’’درد دل‘‘ کا کیا علاج ہو بقول غالب ؔ
دل میں درد ہو تو دوا کرے کوئی
جب دل ہی درد ہو تو کیا کرے کوئی
مولانا سید عبدالرحمن قادری طاہر اس پاکیزہ شب اور اجتہادی رات میں فنا فی اللہ ہوکر باقی باللہ ہوگئے، فضل الٰہی نے انہیں ایک ہمہ جہت شخصیت کا درجہ عطا کیا تھا۔ بنیادی طور پر وہ ماہر حیوانات تھے اور میرے ہم جماعت تھے لیکن وہ ایک حکیم حاذق اور بلند پایہ نعت گو شاعر بھی تھے۔ اس کے علاوہ سب سے افضل وصف ان کا وہ صوفیانہ مزاج تھا جو میرے محسوسات کے اعتبارات سے ’’عرفان و احوال‘‘ کا مرتبہ تھا۔ میرے لئے ان کا یہ سانحہ ارتحال اس لئے شخصی سانحہ ہے کہ میں اور رحمن صاحب اکثر مسائل یا موضوعات تصوف پر گفتگو کیا کرتے تھے۔ اس معاملہ میں کوئی ہم خیال اور ہم مشرب دوست ہونا از بس ضروری ہے کہ خانہ دل کے تجربات اور ماورائیت کے احساسات کو ایک دوسرے سے کہا جاسکے چنانچہ تصوف کے شہرۂ آفاق مسائل جیسے و حدت الشہود، وحدت الوجود، جبر و قدر، خیر و شر اور تلوین و تمگین کے علاوہ و ’تزکیہ نفس‘، ’تصفیہ قلب‘ اور ’تجلیہ روح‘ پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوا کرتی تھی۔ ’’تصوف‘‘ کو بعض نے پیچیدہ بناکر پیش کیا اور بعض نے اس کو ’’آسان‘‘ بناکر پیش کیا۔ یہاں ایسے پردے ہیں جو خود جلوؤں کا مظہر ہوتے ہیں۔ ’پردہ‘ کو ’جلوہ‘ اور ’جلوہ‘ کو پردہ‘ جاننا بہت پایہ کی تفہیم و ترسیل کا تقاضہ سے یہ ادراک جسے مل گیا، مل گیا اور کامیاب و بامراد بھی ہوا۔ شاہِ شاہان ولایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ ’’نہج البلاغہ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’لوگوں میں سب سے زیادہ کرم و بخشش کا وہ اہل ہے جس کا رشتہ اشراف سے ملتا ہے‘‘۔ (بحوالہ سیاست مورخہ 24 ستمبر 2019ء) اب حضرت عبدالرحمن قادری طاہرؔ کا کیا پوچھنا… ایں خانہ تمام ہمہ آفتاب است والی بات صادق آتی ہے۔ آپ 1934ء میں جس کا مجموعہ 17 ہوتا ہے یعنے حضرت غوث اعظم کی 17 ویں) اس جہان آب و گل میں حضرت العلامہ سید عبدالقیوم نقشبندیؒ کے چشم و چراغ کی صورت اپنے وجود کا احساس دلایا۔ دادا حضرت سید شاہ عبدالحی قادری، نقشبندیؒ تو نانا حضرت غلام غوث شطاری جو جال محترم حضرت العلامہ شیخن احمد شطاری کامل کے والد بزرگوار تھے۔ پھر یہی نہیں ولی صفت برادر محترم سید عبدالولی قادری کے برادر خورد جو سابق شیخ الجامعہ نظامیہ اور یکتائے زمانہ فن تعمیر کے ماہر اسٹرکچرل انجینئر اور آرکیٹکٹ جن کے نقش و نگار اور تعمیری افکار کے ہزارہا نمونے بصورت مساجد اور اپارٹمنٹ آج بھی موجود ہیں، کوئی ان کے خلا کو پُر نہ کرسکا بلکہ حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں بابو خاں کامپلیکس بناکر ولیؔ صاحب ہی نے ہمہ منزلہ عمارتوں کی بنیاد رکھی تھی۔ بنیادی طور پر ہم ابتداً ولی بھائی کو ایک انجینئر ہی کی حیثیت سے جانتے تھے جو حمایت ساگر کے قریب واقع انجینئرنگ ریسرچ لیاب میں ایک ریسرچ انجینئر کی حیثیت سے سرکاری خدمات انجام دے رہے تھے۔ جب میں رحمن صاحب اور ڈاکٹر قائم مرحوم اکثر و بیشتر کمبائنڈ اسٹڈی ان ہی کے دیوان خانہ میں کیا کرتے تھے۔ قائم مرحوم ملک پیٹ میں نور خاں بازار میں اور اس وقت رحمن صاحب اور ولی بھائی وغیرہ اعزا اسکول کے قریب مسجد گلزار سے متصل مکان میں رہا کرتے تھے۔ فاصلوں کی یہ قربت تحصیل علم کو اجتماعی انداز بخشا۔ دیر گئے رات تک بھی انجینئرنگ کی مختلف شعبہ جات خاص طور پر آب پاشی ڈیم اور ہمہ منزلہ عمارتوں پر تحقیقی رسالے اور کتابیں پڑھتے ہیں، محترم ولی صاحب کے اس عمل سے ہمیں بھی ایک نئی اُمنگ ملی کہ خدمات کے دوران بھی پیشہ ورانہ تعلیم کو مسدود نہیں کرنا چاہئے۔ یہی جذبہ تھا کہ برادر محترم رحمن صاحب نے ڈپلوما نہیں کیا، باضابطہ ڈگری کورس میں داخلہ لیا۔ ان کے ڈپلومہ کورس کو تسلیم کرتے ہوئے جامعہ عثمانیہ وٹرنری کالج میں انہیں راست دوسرے سال میں داخلہ ملا جبکہ ہم نے پہلا سال کامیاب کرکے ان کے ہم جماعت ہونے کا شرف حاصل کیا۔ ظاہر ہے عمر کا تفاوت ایک دہے کا تھا لیکن وہ بڑی مروت، انکساری اور اخلاق کریمانہ سے نہ صرف ہم سے بلکہ بلالحاظ مذہب و ملت تمام ہم کلاس میں بزرگ کی حیثیت سے مقبول تھے۔ طالب علمی کے دور میں البتہ ہر موقع پر برجستہ کسی نہ کسی کا شعر سنا دیا کرتے تھے۔ طاہر ؔ القادری طاہرؔ عبدالرحمن کے نعتیہ اور منقبتی اشعار پر ایک طائرانہ نظر ہی سے دیکھ لیں کیسے وہ اپنے ہی اشعار میں اپنی شکل اپنے قد و قامت، اپنی سپردگی، اپنی عقیدت اور اپنا عشق کس طرح ایک آئینہ کی طرح روبرو پیش کرتے ہیں۔
چند نعتیہ اشعار :
گزارش اتنی ہماری ہے یارسول اللہؐ
تمہارے در کے غلاموں میں نام ہوجائے
کہاں کا جینا و سکوں ، بے قراری ہے
بلالو جلد ، سکونِ دوام ہوجائے
رہین منت دردِ اُلفت ہوں
اسی میں عمر دو روزہ تمام ہوجائے
ہو اِک نگاہِ کرم خستہ جاں طاہرؔ پر
مَرے مدینہ میں ، اُس کا کام ہوجائے
جو بھی ہے اُن کی مرضی، مرضی میری وہی ہے
وابستہ ہوں میں اُن سے اُن سے ہی زندگی ہے
اُن سے نظر ملا کہ آفت میں جاں پھنسی ہے
ہوتی ہے بے قراری ہچکی سی اِک لگی ہے
ائے دِل تجھے قسم ہے ، چلنا ہے اس گلی میں
جہاں اُن کا ٹھکانہ ، جہاں مری زندگی ہے
ہے لبوں پہ یاحبیبیؐ یامصطفیؐ نبی جی
اسی درد سے ہمارے ایماں کی تازگی ہے
پس مرگ پاس آئیں حور و ملک یہ کہتے
یہ نبی ؐکا ہے دیوانہ اور اُن ہی پر جان دی ہے
دیوار و بام سے طاہرؔ آواز یہ کاش آئے
صدقے میں مصطفےؐ کے بخشش تری ہوئی ہے
ائے کاش کہ اتنا تو قسمت میں لکھا ہوتا
سگ بن کے مَیں طیبہ کی گلیوں میں رہا ہوتا
تقدیر سنور جاتی ، ارماں نکل جاتے
چوکھٹ پہ کبھی تیری سر اپنا رکھا ہوتا
دن رات تڑپ ہوتی، آتا نہ قرار مجھ کو
اَشکوں کے سمندر کا طوفان اُٹھا ہوتا
حالت پر میری ہنستے، دیوانہ مجھے کہتے
یوں عشقِ محمدؐ میں بے خود جو ہوا ہوتا
ہر روز ستم ہوتا ، بیمار محبت پہ
شاکی نہ کبھی ہوتا ، راضی بہ رضا ہوتا
طاہرؔ کو کبھی آقا طیبہ جو بلا لیتے
تو جوش جنوں اس کا کچھ اور سوا ہوتا