بنگال کی یکجہتی پر فرقہ پرستی کی منحوس نظر۔ شکیل شمسی

,

   

تقسیم الوطن کی منافرت نے جب اس ملک کو فرقہ پرستی کی اگ میں جھونکا تو بنگال اس میں بری طرح جھلسا تھا۔ فرقہ پرستی نے خون بہانے کا اتنا بھیانک کھیل وہاں کھیلا تھا کہ انسانوں کے خون سے بنگال کی زمین لال ہو گئی، یہاں تک کہ گاندھی جی کو 13جنوری 1948 کو غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ گاندھی جی سے ہندووں اور مسلمانوں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جان بچانے کے لیے انکے سامنے آکر اپنے ہتھیار پھینکے اور اپنے حامیوں کو تشدد سے دور رکھنے کا وعدہ کیا جس کے بعد 18جنوری کو گاندھی نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کردی تھی۔ اسکے بعد بنگال میں فسادات کاسلسلہ نہ صرف تھما بلکہ رفتہ رفتہ ختم بھی ہو گیا۔ اس ماحول کو سدھارنے میں وہاں کی کیمونسٹ پارٹی کی حکومت نے بہت اہم رول ادا کیا تھااور کیمونسٹوں کے زوال کے بعد ہندو مسلم اتحاد کی بھاگ ڈور ممتا بنرجی نے سنبھال لی۔ بلکہ یوں کہنا تو بہتر ہوگا کہ ممتا بنرجی نے چائینیز مانجھے کی جیسی اتحاد کی ڈور ایسی سنبھال لی کہ مخالفین کی پتنگیں تو کٹی ہی بلکہ اسکی زد میں فرقہ واریت کی گردنیں بھی آ گئیں۔ اس اتحاد کی ڈور کو توڑنے کی کوشش میں بی جے پی گذشتہ پانچ سالوں میں اپنی پوری طاقت جھونک رہی ہے۔ اس کی فرقہ پرستی کا کھیل یہاں تک کھیلا جا رہا ہے کہ باقاعدہ طور پر درگاہ اور پوجا اور محرم کے جلسوں کے نام لے کر طعنے دیے جاتے ہیں۔ اس بات کی پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ ٹیگور و نذر الاسلام کی سرزمین کے سینے پر فرقہ واریت کی پھاوڑ اچھلا کر محبت کی ہری بھری فصلوں کو بربادکیا جائے۔ مگر اپنی فرقہ واریت کی کدالوں سے انسانی دلوں کی کھدائی کرکے گندی  نالیاں بنانے کی بی جے پی کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ اس کا یقین مجھے اس وقت ہوا جب میں جمعرات کو کولکتہ پہونچا۔ میں نے دیکھا کہ مسلم اکثریتی علاقہ سے ترنمول کانگریس کے امیدوار سندیپ بندھوا پاندیا کی حمایت میں جلوس نکالا جا رہا تھا۔ اس جلوس میں بڑی تعداد میں مسلم نوجوان اور بزرگ سب شامل تھے۔ جلوس میں جو نعرے لگ رہے تھے اس میں ایک وندے ماترم کا بھی نعرہ تھا مگر جلوس میں شامل کوئی مسلمان اس پر معترض نہیں تھا۔ یہ وہی نعرہ ہے جس کو بی جے پی اکثر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مسلمانوں کی وسیع القلبی کا یہ مظاہرہ اس بات کا غماز تھا کہ وہ بنگال میں فرقہ پرستوں کی چالوں کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ ویسے اس بار مجھے کولکتہ میں بلا کی تبدیلیاں نظر آئی، کسی زمانے میں روشنی سے محروم ہونے والی سڑکوں پر نہ صرف بجلیوں کے کھمبوں کی قطاریں روشن کر رہی تھی بلکہ بجلی کے جھنڈے بھی روشن تھے اس لیے کہ اس ہر بجلیوں کی جھالر لپیٹ دی گئی تھی۔ اور یہ نظارہ صرف پارک اسٹریٹ اور ویلزلی اور چورنگی سڑکوں تک محدود نہیں تھا بلکہ مٹیا برج کے اس مسلم اکثریت علاقہ میں بھی نظر آیا جس کو اودھ کے آخری تاجدار نواب واجد علی شاہ نے آباد کیا تھا۔ مٹیا برج کے بھیڑ بھاڑ کے علاقے میں ٹریفک کا تو وہی عالم تھا جو میں گذشتہ 35 برسوں سے دیکھتا آرہا ہوں، لیکن مٹیا برج تک رسائی کے لیے جو اور برج اور فلائی اورس جو بنائے گئے تھے اس کی وجہ سے سینٹرل کولکتہ سے مٹیا برج جانا بہت اسان ہوگیا۔ مٹیا برج میں ایک اور خوشگوار تبدیلی یہ نظر آئی کہ وہاں کی گارڈن ریچ روڈ(جس کا نام اب واجد علی شاہ سرانی ہو گیا ہے) پر تقریباً ایک کلومیٹر لمبا پارک بنادیا گیا ہے، جس میں مسلم خواتین اور بچوں کا ازدحام نظر اتا ہے۔ جب میں نے مٹیا برج کے ایک بزرگ سے اس سلسلے میں سوال کیا توانہوں نے کہا کہ ہمارے لیے ترقیاتی کام اتنے ضروری نہیں ہے جتنا ہندو مسلم اتحاد ضروری ہے۔ اور ممتا بنرجی اس اتحاد کو جانفشانی کے ساتھ بڑھا رہی ہے جو اس کی مقبولیت کا راز بھی ہے۔ آخر میں ایک اور بات کی طرف توجہ مبذول کرادوں اگر اپ کولکتہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر سفر کرینگے تو وہاں ملبوسات بیچنے والا ایسا شو روم نظر ائے گا جہاں لکھا ہے  Namo اس دکان میں مودی جی کے اسٹائل والی جیکٹ کرتے اور بھگوا رنگ کے دوسرے ملبوسات ملیں گے جس طرح نمو ٹی وی کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی اسی طرح اس دوکان کی طرف بھی کسی کا دھیان نہیں گیا۔ شاید اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ نمو جاب چپنے والے لوگ پورے بنگال میں اس قدر کم ہے کہ اس طرح کے پروپیگنڈے کا پورے بنگال میں سیکولر طاقتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔