بنگلہ دیش کا قیام آر ایس ایس کے خواب کی تکمیل

   

شیشادری چاری
سال 1971ء کو بلاشبہ کئی ایک بڑی کامیابیوں کا سال کہا جاسکتا ہے اور وہ ایسی کامیابیاں تھیں جن کے ہندوستان پر طویل مدت تک اثرات مرتب ہوئے۔ قومی موڈ بھی بہت پرجوش اور خوشگوار تھا۔ پچاس برسوں بعد اگر ہم پلٹ کر ماضی کی طرف دیکھتے ہیں ،اُس وقت کے عوامی موڈ اور موجودہ عوامی موڈ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں کئی تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ کئی سلسلہ وار مضامین میں مشہور و معروف ادیبوں نے اس دور میں رونما ہوئے کئی کلیدی واقعات کی یادیں تازہ کیں اور امن واقعات کے بعد سے جاری مسلسل عمل کے نوجوان نسل پر مرتبہ اثرات کے بارے میں بتایا کہ ان واقعات نے نوجوان نسل کے انداز فکر پر کیسے اثرات مرتب کئے اور کیسے ایک جدوجہد سے پُر لیکن پرامید ملک کو دنیا کے نقشے میں اُبھار کر سامنے لایا۔ جون 2015ء میں حکومت بنگلہ دیش نے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو باوقار بنگلہ دیش کی جنگ آزادی اعزاز عطا کیا، تاہم بی جے پی کے بزرگ لیڈر واجپائی نے جو اس وقت 90 سال عمر کے ہوچکے تھے۔ اپنی ضعیف العمری کے باعث ایوارڈ تقریب میں شرکت نہ کرسکے لیکن اس وقت وزیراعظم نریندر مودی نے اٹل بہاری واجپائی کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کی طرف سے ایوارڈ حاصل کیا۔ جو توصیف نامہ ایوارڈ کے ساتھ دیا گیا اس میں واجپائی کی ایک انتہائی قابل احترام سیاسی لیڈر کی حیثیت سے ستائش کی گئی۔ ساتھ ہی 1971ء میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کی تائید و حمایت میں ان کے سرگرم کردار کو بھی تسلیم کیا گیا تھا۔
جس وقت بنگلہ دیش نے پاکستان سے آزادی حاصل کی۔ اٹل بہاری واجپائی بھارتیہ جن سنگھ (بی جے ایس) کے صدر تھے۔ توصیف نامہ میں ان کا حوالہ صدر بھارتیہ جن سنگھ اور رکن پارلیمنٹ کے طور پر دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ واجپائی نے بنگلہ دیش کی آزآدی کیلئے مختلف اقدامات کئے۔ آر ایس ایس کے ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ کے مطابق واجپائی نے بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کے تاریخی اعلان آزادی کا خیرمقدم کرتے ہوئے حکومت ہند پر زور دیا تھا کہ وہ حکومت بنگلہ دیش کو تسلیم کرے، اور بنگلہ دیشی مجاہدین آزادی کو ضروری اعانت فراہم کرے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے صدر عبدالحمید نے 2015ء میں کہا تھا کہ اپوزیشن میں رہنے کے باوجود کس طرح واجپائی نے سیاسی عملیت پسندی اور سیاسی بصیرت دور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے کاز کیلئے اس وقت کی ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی کی بھرپور تائید و حمایت کی تھی۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی ہوئی بات نہیں کہ بھارتیہ جن سنگھ کا قیام 21 اکتوبر 1951ء کو عمل میں آیا اور وہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی پاکستان سے علیحدگی و آزادی اور تخلیق بنگلہ دیش کی زبردست حامی اور وکالت کرنے والوں میں شامل تھی، کیونکہ اس کے پاس قیام بنگلہ دیش کی تائید و حمایت پر مجبور ہونے کی کئی وجوہات تھیں۔
اگر بنگلہ دیش کے قیام سے قبل کے حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1969ء میں کانگریس میں پھوٹ پڑ گئی اور اس پھوٹ نے اندرا گاندھی کیلئے قیادت کا سنگین چیلنج پیش کیا۔ سواتنتر پارٹی اور مقامی یا علاقائی لیڈروں نے جو خلاء پیدا کی، ایسا لگ رہا تھا کہ بھارتیہ جن سنگھ اس خلاء کو پر کرنے والی تھی۔ ان حالات میں بھارتیہ جن سنگھ اندرا گاندھی کی قیادت کیلئے ایک بڑے چیلنج کے طور پر اُبھری (جہاں تک کہ جن سنگھ نے نا دکھائی دینے والی سیاہی کے الزامات کے ذریعہ اندرا گاندھی کی کامیابی کو داغدار کرنے کی ناکام کوشش کی ، اس کے بعد بھی)
وہ ایسا دور تھا جب اٹل بہاری واجپائی بی جے ایس کے ایسے لیڈر کے طور پر ابھر چکے تھے جسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا تھا۔یہاں تک کہ وہ ساری اپوزیشن میں ایک پراثر لیڈر کی حیثیت سے رکھتے تھے۔ آر ایس ایس کی قرارداد اور اس کی جانب سے پاکستانی آرمی کے بے تحاشہ مظالم کے بارے میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی ہدایات سے جن سنگھ کو اپنے پر پھیلانے یعنی اپنی سرگرمیوں کو وسعت دینے کیلئے انتہائی ضروری ایک پلیٹ فارم حاصل ہوا۔ بی جے ایس نے بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے اندرا گاندھی کے ہر قدم کی تائید کی اور حکومت نے بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کی آمد سے نمٹنے جو بھی حکمت عملی تیار کی یا اقدامات کئے، ان کی بھی آر ایس ایس اور بھارتیہ جن سنگھ نے تائید کی۔ اس وقت موجودہ بنگلہ دیش سے متصل ہندوستانی سرحدوں پر بنگلہ دیشی باشندے پاکستانی فوج کے مظالم سے بچنے ، ٹوٹ پڑے تھے۔ اندرا گاندھی کی حکومت نے ان کی بھرپور مدد کی۔ بی جے ایس اور آر ایس ایس نے بھی حکومت کا ساتھ دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اندرا گاندھی پاکستان کو توڑ رہی تھی اور آر ایس ایس کا ایجنڈہ بھی وہی تھا کہ پاکستان ٹوٹ جائے۔