بھاگوت کا بیان ایک اور مکاری

   

رام پنیانی

آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جس کے کارکنوں کی تعداد کروڑوں میں اور ملحقہ تنظیموں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جبکہ اس کے ہمدردوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ جہاں تک اس کی ملحقہ اہم تنظیموں اور جماعتوں کا سوال ہے آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس طرح وشواہندو پریشد (وی ایچ پی) اے بی وی پی (اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد یہ دراصل اس کی اسٹوڈنٹ ونگ ہے) اور بجرنگ دل بھی اس کی اہم ترین اور بڑی ذیلی تنظیمیں ہوسکتی ہیں لیکن اس کے تحت کام کرنے والی بیشمار تنظیمیں عملی طور پر ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایسی ریاستوں میں بھی جہاں بی جے پی اقتدار میں نہیں ہے اس کی ملحقہ تنظیمیں اور خود آر ایس ایس گزشتہ چند دہوں سے اور اس سے بھی زیادہ پچھلے 8 برسوں سے انتہائی متحرک ہے (اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ مرکز اور ملک کی کئی ایک ریاستوں میں 8 برسوں سے بی جے پی کا اقتدار ہے) اور اسی سب اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آر ایس ایس کے سربراہ جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ اس کے کارکنوںاور ماتحت تنظیموں کے لئے حرف آخر بن جاتے ہیں یہ کارکن اور تنظیمیں سرسنچالک کی ہدایات، باتوں اور بیانات کو نہ صرف اپناتے ہیں بلکہ اپنے اپنے کام کے شعبوں میں ان پر عمل آوری کو یقینی بھی بناتے ہیں۔ اس تناظر میں ہمیں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے حالیہ بیان (3 جون 2002) کو دیکھنا ہوگا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ کاشی، متھرا مندروں کے لئے گوئی تحریک کوئی مہم کا آغاز نہیں کریں گے بلکہ وہ (آر ایس ایس) ان مقامات کو عدالتوں کے ذریعہ حاصل کرے گی۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ معاشرہ میں امن و ہم آہنگی کے خواہاں افراد اسے امید کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں گیان واپی مسجد مسئلہ کے بعد مندروں پر مساجد تعمیر کئے جانے کے سینکڑوں دعوے آر ایس ایس نظریہ کے پیروکاروں نے کئے ہیں۔ اس کی بہترین مثال بی جے پی کی زیر اقتدار ریاست کرناٹک کے کے ایس ایشورپا کا بیان ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کی 36000 مساجد منادر پر تعمیر کی گئی ہیں اور ان مندروں کو قانونی طریقوں سے حاصل کیا جائے گا۔ مسٹر ایشورپا اس طرح کی سوچ و فکر رکھنے والوں کا ایک نمونہ ہے اور بہت سے ایسے ہیں جو مسٹر ایشورپا کی طرح سوچ و فکر رکھتے ہیں۔ ایک طرف بی جے پی کے ایسے اعلیٰ قائد اور سر سنگھ چالک کو یہ نہیں معلوم کہ ہمارے پاس مذہبی عبادتگاہوں سے متعلق 1991 کا قانون موجود ہے جس کے مطابق عبادت گاہیں 15 اگست 1947 کا اپنا کردار برقرار رکھیں گی۔ یہاں پر ناجائز قبضہ کے خلاف بھی قانون موجود ہے آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہیکہ زیر بحث مساجد کئی سو سال قدیم ہیں ایسے میں اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ قوانین کے ساتھ مذہبی عبادت گاہوں کے کردار کو تبدیل کرنا خارج از امکان ہے۔
اب موہن بھاگوت کا جو دعویٰ ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ صرف عقیدہ کا معاملہ ہے اور ہندو، مسلمانوں کے خلاف یا ان کے مخالف نہیں ہیں مسائل ئصرف ان مقامات یا جگہوں پر اٹھائے گئے ہیں جہاں ہندو ہیں اور جن سے ہندو خصوصی عقیدت رکھتے ہیں۔ یہ محض ایک تعمیر ہے۔ اس بارے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہندوؤں کی ہزاروں عبادت گاہیں ہیں جن میں سے کیدارناتھ، ہردوار، دوارکا، جگناتھ پوری اور رامیشورم چند ایک ہیں۔ میرے بڑے ہونے کے برسوں میں جب ہمارے دادا ہمیں یاترا پر لے جانے کے خواہاں تھے انہوں نے ہمیں ہردوار اور پرباگ راج کی یاترا کرائی اور اگلی مرتبہ کرو کشیترائے جانے کا وعدہ کیا۔ یہ مقامات ایودھیا، کاشی، متھرا بہت مقدس مقامات ہیں لیکن ان لوگوں نے ان کا انتخاب اس لئے کیا کیونکہ ان عبادت گاہوں پر تنازع پیدا ہوسکتا ہے ایسے میں یہ سوچنا کہ بھاگوت، آر ایس ایس اپنی راہ تبدیل کررہے ہیں بہت ہی زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے۔
آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی جوں کی توں ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی مسلم اقلیت کو نشانہ بنانا اور سنہرے ماضی پر فخر کرتے ہوئے بار بار سنہرے ماضی کی یاد دلانے کے لئے ان کا ہی بیان کہ ہمیں ہزاروں مساجد میں شیولنگ کی تلاش نہیں کرنی چاہئے دراصل اس پروپگنڈہ کو تقویت پہنچانا ہے کہ مسلم بادشاہوں نے بے شمار مندروں کو تباہ و برباد کیا رچرڈ ایٹنسRichard Eaton جیسے اسکالرس نے اپنی تحقیق کے ذریعہ ہمیں بتایا کہ بے شمار مندروں کو منہدم کرکے وہاں مساجد تعمیر کروانے کے دعوے ایسے ہی ہے جیسے کسی چیز کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنا EATON کے مطابق ہندو راجاؤں نے بھی اپنے حریف ہندو راجاؤں کی تعمیر کردہ منادر کو منہدم کیا تاریخ میں ایسے کئی واقعات پائے جاتے ہیں۔
جہاں تک آر ایس ایس سربراہ کے موجودہ بیان کا سوال ہے وہ اس پروپگنڈہ کو تقویت پہنچاتا ہے کہ اسلام کو حملہ آوروں نے پھیلایا یہ پھر سے تاریخ کو اپنے نظریہ کے مطابق پیش کرنے کے مترادف ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد عرب تاجرین کے ذریعہ ہوئی اور بعد میں لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے ذات پات کی تفریق اور مظالم سے بچنے کے لئے دامن اسلام میں پناہ لی۔ سوامی وویکانندا نے اپنے دو مکتوبات میں تبدیلی مذہب کے حقیقی اسباب کی وضاحت کی یہ مکتوبات انہوں نے 20 ستمبر 1892 کو کیتھری کے پنڈت شنکر لال اور دوسرا مکتوب نومبر 1894 کو ہری داس وٹھل داس دیسائی کو لکھا۔ ان خطوط میں انہوں نے لکھا ’’تبدیلی مذہب عیسائیوں اور مسلمانوں کے ظلم و جبر کے باعث نہیں ہوئی (زبردستی نہیں ہوئی) بلکہ اعلیٰ ذات کے مظالم سے ہوئی ہے‘‘۔
موہن بھاگوت کے مطابق حملوں میں (مسلم حملہ آوروں کی جانب سے کئے گئے حملوں میں) ہزاروں مندروں کو صرف اس لئے منہدم کیا گیا تاکہ ان لوگوں کے حوصلے پست ہو جائیں جو آزادی کے خواہاں تھے، ہندو سماج خاص طور پر ان عبادت گاہوں پر زور دیتا ہے۔
یہ دراصل بھاگوت کی سوچ کا محور ہے جو مختلف پرتوں کے ذریعہ نفرت پھیلاتے ہیں اور اسی کی وجہ سے نپور شرما جسے لوگ ٹی وی کے ذریعہ نفرت کا زہر گھولتے ہیں جبکہ نوین جندال جیسے عناصر دو قدم آگے بڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں یہ انتہائی شرم کی بات ہیکہ بی جے پی نے نفرت پھیلانے والوں کے خلاف اس وقت تک کارروائی نہیں کی جب تک خلیجی ملکوں نے ہمارے سفیروں کو طلب کرکے ڈانٹ ڈپٹ شروع نہیں کی۔ موہن بھاگوت کے بیان کو کئی لوگ آر ایس ایس میں تبدیلی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ سچ ہیکہ بھاگوت کے اس بیان سے آر ایس ایس کے پابند ڈسپلن کیڈر پر کسی حد تک بریک لگے گا اور کچھ وقت کے لئے وہ اپنی فرقہ وارانہ سرگرمیاں روک دیں گے۔ ہاں نفرت کی سیاست کے باعث منظر عام پر آئے اضافی پہلو یہ بھی ہیکہ ایسے بے شمار عناصر ہیں جن پرآر ایس ایس کا کنٹرول نہیں ہے جو پچھلے چند برسوں سے فروغ بھی پارہے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکمراں پارٹی اور اس کی حکومت پوری طرح ان کی طرفدار ہے۔
دھرم سنسدوں میں جو نفرت انگیز تقاریر کی گئیں وہ ہمارے احساس اخوت کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ یہ تقاریر نفرت پھیلانے والوں نے کی اور انہیں بہت پھیلایا یہ عناصر اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے بے تکان کام کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں کرناٹک سے تعلق رکھنے والا بی جے پی رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ بھی ہے جو ہر وقت اسی طرح کی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ حال ہی میں آسٹریلیا میں منعقدہ ان پروگرامس کو منسوخ کیا گیا جس میں تیجسوی سوریہ کو مدعو کیا گیا تھا، مقامی لوگوں نے ان پروگرامس کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔ اب یہ سوال کیا جارہا ہیکہ خلیجی ممالک نے جو احتجاج کیا ہے اس کے بعد کیا یہ امید پیدا نہیں ہوئی کہ نپور شرما اور تیجسوی سوریہ جیسے لوگوں کو کنٹرول میں رکھا جائے گا؟ اگر ایسا ہوگا بھی تو وہ عارضی طور پر ہوگا۔ موہن بھاگوت نے 2018 میں بھی وگیا بھون میں ایسے ہی لکچرس دیئے تھے جس پر بعض شخصیتوں نے امید جتاتی تھی کہ آر ایس ایس کی سمت میں ایک بنیادی تبدیلی آئے گی لیکن ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے کیونکہ آر ایس ایس کی اہم تربیت کا جُز یہی ہیکہ بیرونی حملہ آوروں نے ہماری مندروں کو گرایا اور تلوار کی زور پر اسلام پھیلایا۔