بی بی سی پر بھی انکم ٹیکس کارروائی

   

میری نگاہ میں ہے وہ غم کی سیاہ رات
جلتے رہے چراغ مگر روشنی نہ تھی
ملک میںجس کسی گوشے سے حکومت کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا اس کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے اس کے خلاف حکومت حرکت میں آجاتی ہے ۔ گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران یہی کچھ ہوتا آیا ہے ۔ جو اپوزیشن قائدین حکومت کو سختی سے نشانہ بناتے ہیں یا تنقیدیں کرتے ہیں انہیںمختلف سرکاری محکمہ جات اور ایجنسیوں کی کارروائیوںسے نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کئی قائدین ایسے ہیں جن کے خلاف پہلے سے قانونی کارروائیاں جاری تھیں لیکن انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تو یہ تمام کی تمام کارروائیاں برفدان کی نذر کردی گئیں۔ کئی مواقع ایسے بھی آئے جب خود بی جے پی حکومت میںکئی قائدین کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا گیا ۔ چند دن بعد یہی قائدین جب بی جے پی کی صفوںمیںآ بیٹھے تو یہ کارروائیاں کیوں روک دی گئیںاس کا کسی کو پتہ نہیں ہے ۔ اب ملک میں ایک موضوع زیادہ شدت سے چلایا جا رہا ہے اور وہ ہے بی بی سی کی جانب سے تیار کردہ ڈاکیومنٹری کا جو گجرات فسادات اور اس میں نریندر مودی کے رول سے متعلق ہے ۔ حالانکہ یہ شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ یہ ڈاکیومنٹری خودا س مقصد سے جاری کی گئی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہونچایا جاسکے ۔ عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرسکے اور بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل سے ان کی توجہ ہٹائی جاسکے۔ تاہم دکھاوے کیلئے ہی صحیح اب بی بی سی کے دفتر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ انکم ٹیکس محکمہ کے عہدیداروں نے آج بی بی سی کے دفتر کا دورہ کیا اور وہاںتلاشی لی گئی ۔ فونس ضبط کئے گئے ۔ کمپیوٹرس کی جانچ کی گئی ۔ یہاں اصل مسئلہ کسی کارروائی کا نہیں بلکہ اس کارروائی کے وقت کا ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ بی بی سی کی جانب سے ڈاکیومنٹری جاری کی گئی ہے اور فسادات میں اس وقت کے چیف منسٹر گجرات کے رول پر سوال کئے گئے ہیں بی بی سی کے خلاف اس طرح کی کارروائی یہی سوال پیدا کرتی ہے کہ ابھی کیوں کارروائی کا خیال آیا ہے ؟ ۔ بی جے پی مرکز میں آٹھ سال سے برسر اقتدار ہے لیکن کارروائی ابھی کی گئی ہے ۔
بی بی سی کی جانب سے ڈاکیومنٹری کی اجرائی کا وقت بھی مشکوک ہے ۔ گجرات فسادات کو دو دہوں سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے ۔ کئی بستیاں جو اجڑ چکی تھیں وہ بس رہی ہیں۔ کئی لوگ اب بھی ان فسادات کے اثرات سے متاثر ہیں۔ اب بھی کئی خاندان اجڑے ہوئے ہیں۔ کئی مقدمات کی سماعت پوری ہوچکی ہے ۔ کچھ ملزمین کو رہائی ملی ہے اور کچھ کو سزا بھی ہوئی ہے ۔ متاثرہ خاندان اب معمولی کی زندگیوںکی سمت لوٹ رہے ہیںایسے میں ڈاکیومنٹری کی اجرائی کا مقصد بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہونچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔ بی جے پی اس ڈاکیومنٹری کا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔ ماحول کو ایک بار پھر فرقہ وارانہ جذبات کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ عوام کے مذہبی جذبات کو ابھارتے ہوئے انتخابی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ اس مسئلہ کو ختم کرنے کی بجائے طوالت دینے کی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے ۔ اس مسئلہ کو زندہ رکھتے ہوئے بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جا رہی ہے ۔ کئی گوشے اس مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے عوام کے ذہنوں پر مسلط کرنے کی کوششوں کا بھی آغاز کرچکے ہیں۔ قانونی اور اہمیت کے حامل پہلووں کا احاطہ کرنے کی بجائے مذہبی اشتعال کے پہلو پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے ۔ سماج کے دو اہم طبقات کے مابین ایک بار پھر خلیج پیدا کرنے یا پہلے سے موجود خلیج میں اضافہ کی حکمت عملی کے تحت کام کیا جا رہا ہے اور اس پہلو کو سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
ہندوستان میںآج بے شمار مسائل ہیں۔ نوجوانوںکو روزگار نہیں مل رہا ہے ۔ جو ملازمتیں پہلے سے موجود ہیں ان کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ ہزاروں افراد ملازمتوں سے محروم کردئے گئے ہیں۔ نوجوانوں کا مستقبل تابناک دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ مہنگائی عروج پر پہونچ چکی ہے۔ بینک گھوٹالے عام بات ہوگئی ہے ۔ کارپوریٹس ہزاروں کروڑ کا غبن کر رہے ہیں۔ عوام کی محنت کی کمائی کو لوٹا جا رہا ہے ۔ ان مسائل کو موضوع بحث بنانے کی بجائے ان سے توجہ ہٹانے کے منصوبوںپر عمل ہور ہا ہے اور بی بی سی کی ڈاکیومنٹری اور اس کے بعد بی بی سی کے خلاف انکم ٹیکس محکمہ کی کارروائی بھی اسی منصوبے کا حصہ ہی ہوسکتی ہے ۔