بی جے پی نے بنایا تاریخ کو یرغمال ،حقیقی قوم پرست نظرانداز

   

ششی تھرور
یہ سب کچھ ایک ڈیجیٹل پوسٹر سے شروع ہوا جو آزادی کا اَمرت مہااُتسو کے ایک حصے کے طور پر انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ یا
ICHR
نے جاری کیا۔ آپ کو بتادوں کہ ہندوستان کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ منانے کے لئے حکومت نے آزادی کا اَمرت مہا اُتسو کے اہتمام کا اعلان کیا ہے۔ یہ ڈیجیٹل پوسٹرس ہر لحاظ سے عجیب و غریب پوسٹر ثابت ہوا، خاص طور پر اس کا جو ڈیزائن ہے وہ انتہائی بدترین رہا۔ اس کی خصوصیات میں دو لوگو، ایک مہااُتسو کا اور دوسرا آئی سی ایچ آر کی 50 ویں سالگرہ کا موجود ہے۔ جبکہ ہندوستان کا ایک بے رنگی نقشہ بھی اس کی زینت بنایا گیا، ساتھ ہی لفظ ’’آزادی‘‘ کے دو اِملا دیئے گئے ایک
AZADI
اور دوسرا
AZAADI
۔ آخرالذکر آزادی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈیزائنر کو آزادی کا اب بھی یقین نہیں۔ اس ڈیجیٹل پوسٹر میں ہندوستان کی آزادی کے 8 معماروں کے پورٹریٹس دکھائے گئے ہیں، لیکن صرف 8 ہی معماران آزادی کے پورٹریٹ دکھانے کا مطلب کیا ہے، اور یہ کیوں دکھائے گئے، اس بارے میں صرف آئی سی ایچ آر ہی بہتر جانتا ہے۔ پوسٹر میں سب سے اوپر مہاتما گاندھی کا پورٹریٹ رکھا گیا اور پھر نیتاجی سبھاش چندر بوس، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، وی ڈی ساورکر، بھگت سنگھ، پنڈت مدن موہن مالویا، سردار پٹیل اور ڈاکٹر راجندر پرساد کے پورٹریٹس رکھے۔ جبکہ جدید ہندوستان کے معمار اور ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا پورٹریٹ اس ڈیجیٹل پوسٹر میں جگہ نہیں پاسکا۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان میں تحریک آزادی کا ذکر پنڈت جواہر لال نہرو کے بغیر نامکمل ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس پوسٹر میں ملک اور خاص طور پر تحریک آزادی کے ایک بلند اور قامت لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی نظرانداز کردیا گیا جبکہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے اہم رہنماؤں کی قابل احترام فہرست اُن کے نام کے بغیر مکمل ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ بے شمار لوگ اس پوسٹر میں ساورکر کے نام کی شمولیت پر حیران ہوسکتے ہیں لیکن آئی سی ایچ آر انتہائی اوچھی سیاست کا شکار ہوئی اور پچھلے 7 برسوں کے دوران حکومت ہند کے اداروں کا جو حال کیا گیا، اس میں سے ایک ادارہ بن گیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی دو عظیم شخصیتوں کو نظرانداز کرنا ایک بہت برا رجحان ہے۔
تحریک آزادی میں ہندوتوا فورسیس یا سنگھ پریوار کے قائدین کا رول نہ کے برابر ہے۔ اس کے برعکس پنڈت جواہر لال نہرو نے آزادی کے لئے ہندوستان کے عزائم کو ایک زوردار آواز دی تھی اور ان کی تقاریر آج بھی ہندوستانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ تدبیرسے تقدیر بنتی ہے۔ کوشش نہ کریں تو تقدیر سنورتی ہے۔ آپ کو یہ یاد دلا دوں کہ تحریک آزادی کی فتح کی درمیانی شب کی گئی تقریر آج بھی لوگوں کے ذہنوں اور تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ انہوں نے بحیثیت وزیراعظم 17 برسوں تک ہندوستان کی جمہوریت کو مستحکم کیا اور ہر اس چیز کو استحکام بخشا جو ہندوتوا بریگیڈ کو پسند نہیں تھی جس سے وہ ناراض تھے۔ ایسے میں ہندوتوا فورسیس کیلئے انتقام کا بہترین موقع دستیاب ہوا، تاہم پنڈت نہرو کو مجاہدین آزادی کے پوسٹر سے نکالنا یا ان کے پورٹریٹ کو شامل نہیں کرنا بہت خراب مثال ہے۔ ہندوستان چھوڑ دو تحریک جس کا آغاز 1942ء کو ہوا تھا، اس کی 70 ویں سالگرہ منانے کے لئے مودی نے ’’70 سال آزادی: ذرا یاد کرو قربانی‘‘ نامی مہم شروع کی تھی۔ جیسے میں نے 2017ء کو ایک آرٹیکل لکھا تھا اور اس میں کھلے طور پر یہ بتایا تھا کہ ہندوتوا تحریک کا ہندوستان چھوڑ دو تحریک سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اور نہ ہی ہندوستان کی آزادی میں اُن لوگوں نے کوئی قربانی دی، لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی زیرقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی خود قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے اور وہ یہ بتانا چاہتی ہے کہ ہندوتوا قائدین نے بھی جدوجہد آزادی میں حصہ لیا تھا۔ مودی حکومت حقیقت سے بعید باتیں کرتے ہوئے عوام کے سامنے جن سنگھ، آر ایس ایس اور ہندوتوا تحریک کے قائدین کو مجاہدین آزادی کے طور پر پیش کررہی ہے، حالانکہ آزادی کیلئے جب قومی سطح پر جدوجہد شروع کی گئی تب ان تنظیموں کے قائدین اس تحریک میں نظر نہیں آتے۔ بی جے پی نے ایسے قائدین کو مجاہدین آزادی کے طور پر پیش کیا ہے، جنہوں نے اجتماعی طور پر انگریزوں کے تسلط میں تعاون و اشتراک کیا تھا ، جبکہ ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران ملک کے حقیقی قوم پرست جیلوں میں ڈالے گئے چنانچہ اپنی سرپرست تنظیموں میں قوم کو ایک نیا عزم و حوصلہ دینے والے قائدین کے فقدان کے باوجود مودی جیسے لوگوں نے رول ماڈل کیلئے ادھر اُدھر دیکھنا شروع کیا اور پھر سردار پٹیل کی وراثت پر اپنا دعویٰ کیا جبکہ سردار پٹیل خود گاندھیائی تھے لیکن اُنہیں ہندوتوا کے آئیکن یا ماڈل بننے کیلئے موزوں سمجھا گیا ساورکر جس نے نہرو اور دیگر کی طرح جیل کی صعوبتیں برداشت نہیں کیں بلکہ انگریزوں کی قید سے رہائی کیلئے معذرت خواہی کرتے ہوئے درخواست دی، اسے ویر قرار دیا اور اس کا پورٹریٹ پارلیمنٹ میں لگایا گیا اور ساورکر کا پورٹریٹ اس عظیم شخص کے بالکل سامنے لگایا گیا جس سے وہ سخت نفرت کیا کرتا تھا، یعنی مہاتما گاندھی کے پورٹریٹ کے سامنے۔ پنڈت مدن موہن مالیہ جو کہ ایک کانگریسی تھے، پھر انہوں نے ہندو مہا سبھا کی قیادت کی، اور بی جے پی نے انہیں بھارت رتن کے ایوارڈ سے نوازا۔ بہرحال آج ہندوستان کا یہ حال ہوگیا ہے کہ جنہوں نے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا اور قربانیاں پیش کیں ، انہیں آزاد خیال قرار دیا جارہا ہے اور قوم پرستی کا لیبل اب ہندوتوا کے حامیوں پر لگا دیا گیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ انہوں نے 9 برسوں تک انگریزوں کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں جبکہ آئی سی ایچ آر نے انگریزوں سے مل کر مجاہدین آزادی کے خلاف کام کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا حالانکہ حقیقی قومی ہیرو جیسے نہرو، پٹیل اور آزاد کو نظرانداز کردیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہندو مہا سبھا انگریزوں کی قائم کردہ صوبائی حکومتوں میں مسلم لیگ کے ساتھ شامل رہی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ 1939ء میں کانگریسی حکومتوں نے انتخابات میں کامیابی کے باوجود استعفیٰ دے دیا تھا اور پھر 1942ء میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع کی۔ آج ہندوتوا کے حامیوں نے قوم پرستی کے معنی و مطالب بدل دیئے ہیں۔ دستوری قوم پرستی کے مشعل برداروں کو نظرانداز کرچکے ہیں۔ بہرحال ان طاقتوں نے ہندوستان کی تاریخ کو یرغمال بنا لیا ہے۔ مسلمانوں کو بابر کی اولاد قرار دیا جارہا ہے، یہ بہت بری بات ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی تاریخ فراموش کرچکے ہیں۔ اگر ایسا ہی رہا تو حالات خطرناک رخ اختیار کرسکتے ہیں۔