تریپورہ۔ ہندوتوا ہجوم کی دہشت گردی کے سبب مسلمانوں کو پریشانیاں

,

   

تریپورہ میں پچھلے ایک ہفتہ سے زائد وقت سے بڑے پیمانے پر مخالف مسلم تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں جس مسجدکونقصان پہنچانے اور توڑ پھوڑ کرنے کے 16مصدقہ واقعات سامنے ائے ہیں۔

اسی میں تین مساجد مکمل طور پر تباہ کردئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 27مصدقہ واقعات ہجوم کے تشدد کے اور دائیں بازو گروپ کی جانب سے تین مکانات کوپانی ساگر میں نشانہ بنانے اور عورتوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کرنے کے واقعات بھی سامنے ائے ہیں۔

نیوز رپورٹس کی مانیں تو یہ حملے بنگلہ دیش میں چند دن قبل پیش ائے فرقہ وارانہ واقعات پر ایک ہفتہ بعد پیش کیاجانے والا ردعمل تھا۔ تاہم سیاست ڈاٹ کام نے کو مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ محض ہندوتوا ہجوم کو موقع دینا ہے تاکہ تریپورہ میں مقامی مسلمانوں کو دہشت زدہ کیاجاسکے۔


تریپورہ میں مساجد کی حفاظت پر مامور پولیس کی مجبوریاں
وہیں تریپور ہ میں مخالف مسلم تشدد پر اسوسیشن آف پروٹوکشن آف سیول رائنس(اے پی سی آر) کی جانب سے منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے وہئے فواز شاہین ایس ائی او قومی جنرل سکریٹری نے کہاکہ جاری تشد د رپورٹنگ کرنیوالے قومی ذرائع ابلاغ عوام کو گمراہ کررہا ہے۔

وہیں شاہین نے مساجد کی حفاظت پر مامور پولیس والوں کی تصدیق کی‘ انہوں نے کہاکہ ضلع مرکز پر واحد وہ محدود ہیں۔


انہوں نے کہاکہ ضلع مراکز پر یہ حملے پیش نہیں ائے‘ یہ مضافاتی علاقوں میں رونما ہورہے ہیں“۔

ندیم خان سکریٹری اے پی سی آر اسی پروگرام سے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ اکثریتی جمہوریت کا یہ خوفناک چہرہ ہے جو تریپورہ میں منظرعام پر آیاہے اور تبصرہ کیاکہ حکومت بڑے پیمانے پرعوامی رابطوں میں سرمایہ کاری کے ذریعہ عوام کو گمراہ کررہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ”یہ لوگ ریاست کی درالحکومت اگرتالہ میں مساجد کی حفاظت کرتے ہوئے وہ چند ایک تصاویر دیکھا رہے ہیں‘ جہاں پر تشدد کی شدت کافی کم تھی“۔


حکومت کی نگرانی میں تشدد؟۔
تقریبا15سے 20 ہزارمسلمان منگل کے روز نارتھ تریپورہ کے تشدد کے خلاف منگل کے روز احتجاج کے لئے سڑک پر اترے۔ تاہم دفعہ 144فوری نافذ کردیاگیاہے۔

صدر جماعت اسلامی تریپور ہ نورالاسلام مظہر بھائی نے اشارہ دیاکہ”مذکورہ اسی طرح کا معاملہ دیہی تریپورہ ہجومی تشدد میں نہیں ہوا ہے“۔انہوں نے مزیدالزام عائد کیاکہ حکومت تریپورہ ایسا ہونے دیا ہے اورہجوم کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیاہے

https://twitter.com/MogalAadil/status/1453221518507331587?s=20


انہوں نے مزیدکہاکہ اضلاعوں میں سے ایک میں بھی پولیس سپریڈنٹ ہجوم کو روکنے اور لاٹھی چارج کاحکم دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ تاہم انہو ں نے کہاکہ اس کے برعکس دیگراضلاعوں میں ہجوم کھلے طورپر سے لوگوں پر بازارو ں حملہ کررہا ہے۔

ایس ائی او سے وابستہ ایک جہدکار سلطان حسین نے کہاکہ مسلمانوں نے کیلاش نگر اور دھامان نگر میں ایک احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی مگر پولیس نے فوری وہاں پر دفعہ 144نافذ کردیاہے۔

انہوں نے سوال کیاکہ کیوں پولیس دیگر علاقوں میں بھی اسی طرح کی کاروائی نہیں کرتی ہے۔

اسکے علاوہ ندیم خان نے بنگلہ دیش اور تریپورہ میں پیش ائے فرقہ وارانہ تشدد پر حکومت کے ردعمل کا موزانہ کیا اورکہاکہ بنگلہ دیش میں تشدد کچھ دنوں تک چلامگر حکومت نے فوری اس پر کاروائی کی اور 500سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا۔

انہوں نے کہاکہ ”معاملہ ہندوستان میں اس کے برعکس دیکھائی دے رہا ہے کیونکہ حکومت ایسا کرناچاہا رہی ہے“۔

ندیم نے الزام لگایاکہ ”فساد زدہ علاقوں میں جانے کی صحافیوں کو اجازت نہیں دی جارہی ہے“
توین آمیز نعرے بازی


سلطان حسین نے کہاکہ منگل کے روز نارتھ تریپورہ میں مذکورہ وشواہندو پریشد(وی ایچ پی)‘ مذکورہ راشٹریہ سیو م سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ہندو جاگرن منچ(ایچ جے ایم) نے ریالیاں نکالی اور شان رسالت ؐ میں توہین آمیزنعرے لگائے اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف بھی بے ہودے نعرے لگائے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہاکہ مسلمانوں کو اکسانے والے ہجوموں کو پولیس تحفظ فراہم کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ”یہ تمام ریالیاں نہایت

جارحانہ اور پر تشدد ہیں“۔ ندیم خان نے کہاکہ ”تریپورہ میں مسلمانوں کی آبادی 8فیصد ہے اور ان علاقوں میں مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں جہاں پر ان کی آبادی 2فیصد کے قریب ہے۔

اس امید کے ساتھ حکومت اب انہیں تحفظ فراہم کرے گی لوگ اپنے گھر وں کو چھوڑ کر جاتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں“