تقویٰسب سے بہترین زادِ راہ ہے

   

تقویٰ عربی لغت کے اعتبار سے ’’وقایۃ‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی بچنے کے آتے ہیں۔ تقویٰ کی تشریح اور توضیح میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے، اس کی نافرمانی نہ ہو، اس کا ذکر کیا جائے کہ نسیان نہ ہو اور شکر کیا جائے کہ اس کی ناشکری نہ ہو۔
(حاکم مستدرک ۲؍۲۹۴)
امام فخرالدین رازی نے تقویٰ کی تعریف ’’الخشیۃ‘‘ سے کی ہے یعنی وہ خوف الٰہی کا نام ہے۔ حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ سے تقویٰ کی تشریح اس طرح منقول ہے : تقویٰ اللہ بزرگ و برتر سے ڈرنے اور قرآن و سنت پر عمل کرنے اور دار آخرت کی تیاری کا نام ہے۔ جو اس طرح کرتا ہے اس نے حقیقت میں تقویٰ اختیار کیا ہے۔
امام قشیری نے تقویٰ کی وضاحت اپنے رسالہ میں اس طرح کی ہے : اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے بچنے یعنی یاد الٰہی میں ہمہ تن مستغرق ہونے کا نام تقویٰ ہے۔ (الرسہ : ۵۶)جلیل القدر محدث حضرت سفیان ثوریؒ سے منقول ہے : دنیا اور آفات دنیا سے بچنا تقویٰ ہے۔
حضرت بایزید بسطامیؒ کی نظر میں تقویٰ ہر مشکوک چیز سے صرف نظر کرنے کا نام ہے اور یہ تعریف بھی آپ کی طرف منسوب ہے کہ بلاشبہ متقی وہ ہے جب وہ گفتگو کرے تو اس کا کلام اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور جب وہ خاموش رہے تو اس کی خاموشی اللہ کے لئے ہو اور جب وہ ذکر کرے تو اس کا ذکر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔
حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اس وقت تک متقی نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دوست اور دشمن اس سے مامون و محفوظ نہ ہوں۔
جدید علماء نے قرآن مجید میں تقویٰ کے استعمال کو پیش نظر رکھتے ہوئے تقویٰ کی تعریف ’’احساس ذمہ داری‘‘ سے کی ہے کہ بندہ جب تک اپنے تئیں اللہ تعالیٰ اور مخلوق کی ذمہ داریوں کو محسوس کرکے صحیح انداز میں نہیں نبھائے گا وہ متقی نہیں کہلائے گا۔
تقویٰ خالق اور مخلوق دونوں سے متعلق اپنے حقوق و فرائض کو سمجھنے اور حسن و خوبی کے ساتھ اس کو سر انجام دینے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی کامل مراعات کے ساتھ بندوں کے حسب درجات ان کے حقوق و واجبات کو بہترین سلیقہ سے نبھانے کا نام ہے۔
تقویٰ کے فوائد صرف آخرت میں ظاہر نہیں ہوں گے بلکہ اس کے اثرات اور ثمرات اس دنیا میں نظر آتے ہیں اور تقویٰ کی برکت سے مومن دنیا ہی میں جنت جیسی زندگی کو پالیتا ہے۔ جو رنج و غم سے دور اور قلبی سکون و اطمینان کی حامل ہوتی ہے۔
تقویٰ اور معیت الٰہی
تقویٰ کا سب سے اہم اور مبارک فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی خصوصی معیت نصیب ہوتی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے : یقینا اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کئے اور وہ جو احسان کرنے والے ہیں۔(سورۃ النمل )
جب کسی بندہ کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی معیت اور قربت خاص سرفراز ہوتی ہے تو وہ کس قدر مشکل اور کٹھن صورتحال میں کیوں نہ ہو اس کا قلب مطمئن اور پُرسکون ہوتا ہے۔ جب بندہ تقویٰ کا نور اپنے دل میں پیدا کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس نور کی وجہ سے بندہ کے ہر مشکل سے مشکل کام کو آسان کردیتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے : اور جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملہ میں آسانی پیدا فرمادیتا ہے۔
(سورۃ الطلاق ؍ ۴)
تقویٰ اور رزق
جب بندۂ مومن ذرائع آمدنی اور کسب معاش کے لئے تقویٰ کو پیش نظر رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر آسمانوں اور زمین کی برکتوں کو کھول دیتا ہے اور غیب سے رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جہاں سے اس کو وہم و گمان نہ تھا وہاں سے رزق فراہم ہوتا ہے۔
(دیکھئے : سورۃ الطلاق ؍ ۳۰۲ ، سورۃ الاعراف ؍ ۹۶)
تقویٰ ایسی قوت ہے جس سے انسان اپنے دشمن کے مکر و فریب اور اس کی دسیسہ کاریوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کو دشمن کی تدابیر کو بے اثر کرنے کے زیادہ جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ غیبی مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے اور نہ صرف وہ اپنے دشمن کے مکر سے بچ جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے اس پر غالب ہوجاتا ہے۔ ارشاد ہے : اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو تم کو ان کا مکر کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ (سورۃ آل عمران ؍ ۱۲۰)
تقویٰ کی وجہ سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک غیبی قوت عطا ہوتی ہے جس کے نور سے وہ حق و باطل میں فرق کرنے لگتا ہے۔ اچھائی اور بُرائی میں تمیز کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے اور نازک و پیچیدہ صورتحال میں اصابت رائے کو پالیتا ہے۔ ارشاد ہے : اے ایمان والو! اگر تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہارے لئے (حق و باطل) میں فرق کرنے والی (قوت و حجت) عطا کرے گا اور تمہارے (دامن سے) سے تمہارے گناہوں کو مٹادے گا اور تمہاری مغفرت فرمادے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (سورۃ الانفال ؍ ۲۹)
سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کا دوست بن جاتا ہے کیوں کہ جو اپنے دل کو دنیا، نفس اور شیطان سے بچاکر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے حفاظت کرتا ہے اور اطاعت و فرمانبرداری اور یادِ الٰہی سے روشن و منور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس خوش نصیب کو دنیا و آخرت میں اپنا دوست بنالیتا ہے اور وہ اس کا حامی بن جاتا ہے۔ ارشاد ہے : اس کے دوست صرف اور صرف متقین ہیں۔ (سورۃ الانفال ؍ ۳۴)
نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر ہے اور آخرت کی کامیابی اور ترقی کا دار و مدار خاتمہ بالخیر پر موقوف ہے اور جو بندہ تقویٰ اختیار کرلیتا ہے اس کا انجام اور خاتمہ بفضل الٰہی بخیر ہوتا ہے۔ ارشاد ہے : اچھا انجام تو اس تقویٰ کی بناء پر ہے۔ (سورۃ طہٰ ؍۱۳۲)
جو نیک اعمال انسان کرتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوں بہت سی کوتاہیاں ہماری عبادت اور اطاعت میں ہوتی ہیں اور جب بندہ تقویٰ اختیار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کو قبول فرمالیتا ہے اور جو کوتاہیاں رہ گئی ہیں اس کو درگزر فرمادیتا ہے۔ ارشاد ہے : بلاشبہ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں سے ہی قبول فرماتا ہے۔ (سورۃ المائدہ ؍ ۲۷)اور جنت جیسی اعلیٰ نعمت متقین کے لئے تیار کی گئی ہے۔ ارشاد ہے : وہ (جنت) متقین کے لئے بنائی گئی ہے۔ (سورۃ آل عمران ۳؍۱۳۳)
اللہ تعالیٰ ہم کو اپنے فضل و کرم سے تقویٰ کی دولت سے سرفراز فرمائے اور دین و دنیا میں اس کے فوائد و ثمرات سے بہرہ مند فرمائے۔
آمین بجاہ طہٰ و یٰسین